سجاد حسین شہید، جنگ ستمبر 1965 میں چتال کا بہادر سپوت

Spread the love

"سجاد حسین شہید: موضع چتال کا بہادر سپوت اور 1965 کی جنگ میں او پی ڈیوٹی کی دلیرانہ قربانی”

تحریر:محمد فاروق منہاس

(مصنف، چکوال پلس ویب سائٹ)

"سجاد حسین شہید جنگ ستمبر 1965” موضع چتال کے ایک بہادر سپوت تھے. جنہوں نے جنگ میں او پی ڈیوٹی کے دوران اپنی جان کی قربانی دی۔ اپنی شجاعت اور بہادری کی وجہ سے، وہ آج بھی قوم کے ہیرو کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں، ہم سجاد حسین شہید کی دلیرانہ خدمات اور چتال کے اس سپوت کی قربانیوں کا تفصیلی احاطہ کریں گے۔

ابتدائی زندگی اور خاندانی پس منظر

سجاد حسین کا تعلق چکوال کے ایک مشہور گاؤں، چتال، کے زمیندار خاندان سے ہے۔ ان کے والد، منشی غلام حسین، ایک محنتی اور مخلص شخصیت کے مالک تھے. جنہوں نے اپنی ساری زندگی تعلیم اور عاجزی کے ساتھ گزاری۔ سجاد حسین کی تربیت میں ان کے والد کی محنت اور عزم کا اہم کردار تھا۔ سجاد حسین بچپن سے ہی ایک ہونہار اور محنتی لڑکے تھے۔ ان کا مضبوط جسم، بلند قد، اور خوبصورت شخصیت انہیں ہر ایک کی نظروں میں ممتاز بناتی تھی۔ یہ خصوصیات نہ صرف جسمانی بلکہ ان کے کردار میں بھی جھلکتی تھیں، جو انہیں ایک منفرد اور مثالی شخصیت کے طور پر پیش کرتی تھیں۔

کھیتی باڑی اور ابتدائی ذمہ داریاں

سجاد حسین کی ابتدائی زندگی کھیتوں میں محنت کرتے ہوئے گزری۔ زمیندار گھرانے سے تعلق کی بنا پر انہیں بچپن ہی سے کھیتی باڑی کی ذمہ داریاں سنبھالنی پڑیں۔ انہوں نے کھیتی باڑی کو محض کام نہیں، بلکہ ایک مشن کے طور پر لیا۔ روزانہ کھیتوں میں جا کر کام کرنے نے ان میں صبر، استقامت، اور محنت کی عادت کو پختہ کر دیا۔ ان کی فطرت میں کھیل کود کا شوق بھی نمایاں تھا، جس کی وجہ سے وہ مختلف کھیلوں، خصوصاً کبڈی جیسے روایتی کھیلوں میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ یہ سب چیزیں انہیں نہ صرف جسمانی طور پر مضبوط بناتی تھیں بلکہ ان کے عزم اور حوصلے کو بھی جلا بخشتی تھیں۔

وطن سے محبت اور افواج پاکستان میں شمولیت

سجاد حسین کے دل میں وطن سے محبت کا جذبہ ہمیشہ موجزن رہا۔ ان کی اس محب وطنی نے انہیں ہمیشہ کچھ بڑا کرنے کی ترغیب دی۔ جب افواج پاکستان میں بھرتی کا آغاز ہوا تو سجاد حسین نے بھی اپنے وطن کی خدمت کے جذبے کے تحت 23 فیلڈ رجمنٹ میں بطور سپاہی شمولیت اختیار کر لی۔ فوج میں شمولیت ان کے لیے نہ صرف ایک پیشہ ورانہ موقع تھا، بلکہ ان کے لیے یہ ایک خواب کی تعبیر تھی، جس میں وہ اپنے وطن کی خدمت کا بھرپور جذبہ رکھتے تھے۔

ذاتی زندگی اور خاندان کی ذمہ داریاں

افواج پاکستان میں شمولیت کے بعد بھی سجاد حسین نے اپنی ذاتی اور خاندانی ذمہ داریوں کو بہترین طریقے سے نبھایا۔ فوج میں شامل ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد ان کے والدین نے ان کی شادی ان کی ماموں زاد کے ساتھ کروا دی۔ شادی کے بعد بھی انہوں نے اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار طریقے سے گزارا اور اپنی فوجی مصروفیات کے باوجود اپنے خاندان اور رشتہ داروں کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے۔ ان کی یہ خوبیاں ان کے کردار کی مضبوطی اور اخلاقی اقدار کی گواہی دیتی ہیں۔

سجاد حسین کی حب الوطنی اور قربانی کا جذبہ

سجاد حسین کی حب الوطنی کا جذبہ اور ان کی فوجی زندگی نے انہیں ہر مشکل اور آزمائش کے لیے تیار کر دیا۔ وہ ایک ایسے نوجوان تھے جنہوں نے نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے خاندان، گاؤں، اور وطن کے لیے بھی ایک مثال قائم کی۔ ان کا عزم اور وطن سے محبت انہیں ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار کر چکی تھی۔ وہ ہر وقت اپنے ملک کی حفاظت اور دفاع کے لیے تیار رہتے تھے۔

شہید سجاد حسین اپنے دیرینہ دوست غلام حیدر(دھیدوال) کے ساتھ فوج میں بھرتی کے وقت کی تصویر
سجاد حسین شہید (بائیں طرف) اپنے دوست غلام حیدر (دھیدوال ) کے ساتھ جوانی کی خوبصورت تصویر

پاک بھارت جنگ 1965ء کا آغاز

ستمبر 1965ء میں، جب بھارت نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر بزدلانہ حملہ کر دیا، تو انہوں نے یہ سوچا تھا کہ وہ صبح کا ناشتہ لاہور جمخانہ میں کریں گے۔ لیکن شاید وہ یہ نہیں سمجھے تھے کہ جس قوم کے ساتھ جنگ کرنے جا رہے ہیں، ان میں جذبہ ایمانی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ بھارتی فوج نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ حملہ کیا، لیکن پاکستان کے سپاہیوں نے اپنی شجاعت اور بے خوفی سے دشمن کو جواب دینے کا عزم کیا۔

جنگ ستمبر 1965ء: سجاد حسین کا محاذ جنگ کے لیے عزم

ستمبر 1965ء کی جنگ کا آغاز ہوا تو سجاد حسین دو ماہ کی چھٹی پر اپنے گاؤں چتال میں موجود تھے۔ گھر میں سب کچھ پرسکون تھا، لیکن ملکی حالات نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا تھا۔ ریڈیو پاکستان سے مسلسل اعلانات ہو رہے تھے کہ تمام فوجی جوان جو چھٹیوں پر ہیں، فوراً اپنی اپنی رجمنٹ میں واپس پہنچ جائیں۔ ان اعلانات کے ساتھ ہی سجاد حسین کو ایک ٹیلی گرام موصول ہوا جس میں انہیں لاہور واہگہ بارڈر پر اپنی رجمنٹ کی ڈیوٹی پر واپس پہنچنے کا حکم دیا گیا۔ یہ لمحہ سجاد حسین کی زندگی کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔

سجاد حسین کو فوج میں شمولیت اختیار کیے ابھی بمشکل دو سال ہی ہوئے تھے، لیکن ان کے اندر جوش اور جذبہ ایک منجھے ہوئے سپاہی سے کم نہ تھا۔ جب ٹیلی گرام ملا تو ان کے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں نے مشورہ دیا کہ وہ گھر پر ہی رکیں اور کہہ دیں کہ انہیں ٹیلی گرام موصول نہیں ہوا۔ ان کے دوستوں کا کہنا تھا کہ جنگ کی شدت اور خطرات کے باعث بہتر ہے کہ وہ اس موقع پر اپنے گھر والوں کے ساتھ رہیں۔ مگر سجاد حسین کے دل میں کچھ اور ہی تھا۔ ان کے دل میں وطن کی محبت اور فرائض کی ادائیگی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

سجاد حسین نے اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کی نصیحت کو سنجیدگی سے سنا لیکن ان کے جواب میں صرف ایک ہی بات کہی: "میں ایک فوجی سپاہی ہوں اور میرا وطن مجھے بلا رہا ہے۔ میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں گھر بیٹھا رہوں جب میرے ملک کو میری ضرورت ہے۔” سجاد حسین کے ان الفاظ نے ان کے عزم اور حب الوطنی کو واضح کر دیا۔ ان کے والد، منشی غلام حسین، جو خود بھی وطن سے محبت کرنے والے انسان تھے، نے اپنے بیٹے کی پشت پناہی کرتے ہوئے کہا: "بیٹا، ملک کو آپ جیسے بہادروں کی ضرورت ہے۔ آپ کو پہلی فرصت میں یونٹ میں پہنچنا چاہیے۔”

سجاد حسین نے اپنے والد کی بات کو اپنے دل سے لگایا اور فوراً تیار ہو گئے۔ وہ اپنے گاؤں کے تمام رشتہ داروں سے ملنے کے لئے گئے، کچھ لوگ گھروں میں تھے اور کچھ کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ سجاد حسین نے ایک ایک سے ملاقات کی، انہیں خدا حافظ کہا، اور اس عزم کے ساتھ نکلے کہ اب ان کی منزل میدان جنگ ہے۔ یہ لمحات ان کے لئے بھی جذباتی تھے اور ان کے خاندان کے لئے بھی۔ ان کے والد کی آنکھوں میں فخر اور دعاؤں کا سچا جذبہ تھا، جبکہ سجاد حسین کے دل میں وطن کے لئے قربانی دینے کا مضبوط عزم۔

سجاد حسین اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ سائیکل پر سوار ہو کر مین روڈ کی جانب روانہ ہوئے۔ یہ سفر نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ جذباتی اور روحانی طور پر بھی ایک اہم سفر تھا۔ جب وہ مین روڈ پر پہنچے تو لاہور جانے والی بس کا انتظار کیا۔ کچھ ہی دیر بعد ایک بس آتی دکھائی دی، سجاد حسین نے اپنے بھائی کو گلے لگایا، اور بس میں سوار ہو کر لاہور کی جانب روانہ ہو گئے۔ ان کے دل میں ایک ہی خیال تھا: وطن کی حفاظت۔

یہی وہ لمحے تھے جو سجاد حسین کی شخصیت کی عظمت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کی جرات اور حب الوطنی نے انہیں محض دو سال کی فوجی سروس کے باوجود ایک ناقابل فراموش سپاہی بنا دیا۔ جیسے ہی وہ اپنی رجمنٹ میں پہنچے، وہ اپنی ڈیوٹی کے لئے پوری طرح تیار تھے۔ ان کی زندگی کا یہ باب، جو چھٹی کے دنوں سے لے کر میدان جنگ تک کا سفر تھا، ان کے بے لوث جذبے، قربانی، اور عزم کا آئینہ دار ہے۔

سجاد حسین کی جنگ میں بہادری اور جنگی کارنامے

جب سجاد حسین اپنی رجمنٹ میں واپس پہنچے، تو وہ توپخانے میں بطور ڈرائیور خدمات انجام دے رہے تھے، لیکن ان کا دل اگلے مورچوں کی طلب کر رہا تھا۔ انہوں نے اپنے کمانڈنگ افسر سے درخواست کی کہ انہیں فرنٹ لائن پر لڑنے کا موقع دیا جائے۔ ان کی درخواست قبول ہوئی، اور انہیں او پی (Observation Post) ڈیوٹی پر مامور کر دیا گیا۔ سجاد حسین کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ دشمن کے ٹھکانوں کی نشاندہی کریں اور ان کے ٹھیک مقامات کی اطلاع دیں تاکہ توپخانے کی گولہ باری مؤثر طریقے سے کی جا سکے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک اور اہم ذمہ داری تھی، جس میں دشمن کے قریب جا کر ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنی پڑتی تھی۔

سجاد حسین اور ان کے ساتھی بی آر بی نہر کے کنارے اپنی جانوں کی بازی لگا کر وطن کا دفاع کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ہی معروف ہیرو میجر عزیز بھٹی بھی اپنے دستے کے ہمراہ دشمن کو ناکوں چنے چبوا رہے تھے۔ دشمن کی جانب سے بزدلانہ حملوں کا سامنا ہو رہا تھا۔ توپوں کی گھن گرج، گولیوں کی بوچھاڑ اور جنگ کی تباہ کن فضاء ہر طرف چھائی ہوئی تھی۔ لیکن سجاد حسین کے قدم کبھی نہیں لڑکھڑائے۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں ان کا عزم اور ارادہ کبھی متزلزل نہیں ہوا۔  ان کی آنکھوں میں جیتنے کا عزم اور سینے میں شہادت کی تڑپ تھی۔

محاذ جنگ سے سجاد حسین گھر والوں کو پوسٹ کارڈز بھیجتے رہے۔ ان پوسٹ کارڈز میں وہ اپنی خیریت کے ساتھ ساتھ اپنی بہادری کے قصے بھی بیان کرتے تھے۔ وہ لکھتے کہ "جس طرح ہمارے مجاہد بہادری سے جنگ لڑ رہے ہیں، انشاء اللہ ہم یہ جنگ جیتیں گے۔” اپنے کزن حاجی سخی محمد (مرحوم) کے نام انہوں نے ایک پوسٹ کارڈ میں لکھا: "بھائی، دعا کریں ہمیں فتح نصیب ہو۔ اگر دوران جنگ میں شہید ہو جاؤں تو غم نہ کرنا، کیونکہ شہید زندہ ہوتے ہیں۔”

جنگ کے سترہ دن انتہائی شدید تھے۔ ہر روز دشمن کے ساتھ آمنا سامنا ہوتا تھا۔ ہر گولی، ہر بم، اور ہر حملہ ایک نئی کہانی سناتا تھا۔ سجاد حسین اور ان کے ساتھیوں کی او پی ڈیوٹی انتہائی اہمیت کی حامل تھی کیونکہ وہ دشمن کی پوزیشنز کی صحیح نشاندہی کر رہے تھے، جس سے پاکستانی فوج کو دشمن کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے میں مدد ملی۔ جنگ کا اختتام اس وقت ہوا جب اقوام متحدہ کی مداخلت پر 22 ستمبر کو جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ جنگ بندی کے وقت، سجاد حسین اور ان کے ساتھی بھارت کے گورسل گاؤں تک پہنچ چکے تھے۔

جنگ بندی کے اعلان کے بعد، جب سجاد حسین اپنے ساتھیوں کے ہمراہ واپس آرہے تھے، تو بی آر بی نہر کے کنارے بھارتی فوجیوں کے ساتھ اچانک آمنا سامنا ہو گیا۔ یہ وہ لمحات تھے جب جنگ تو رک چکی تھی، مگر سجاد حسین اور ان کے ساتھیوں کے دلوں میں وطن کے لیے قربانی دینے کا عزم بدستور زندہ تھا۔

سجاد حسین کی یہ جنگی خدمات اور بہادری کے کارنامے نہ صرف ان کی رجمنٹ بلکہ پوری پاکستانی قوم کے لئے باعث فخر تھے۔ ان کی بہادری، جرأت، اور وطن کی محبت نے انہیں محاذ جنگ کا ہیرو بنا دیا۔ یہ خدمات انہیں ہمیشہ کے لئے پاکستانی تاریخ میں ایک بہادر سپاہی کے طور پر زندہ رکھیں گی۔

سجاد حسین کی دلیرانہ شہادت

جب جنگ بندی کا اعلان ہوا، تو سجاد حسین اپنی او پی (Observation Post) ڈیوٹی سے واپس آرہے تھے۔ ان کی ذمہ داری دشمن کے ٹھکانوں کی نشاندہی کرنا تھی، جس نے پاکستانی فوج کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ بی آر بی نہر کے قریب بھارتی فوج پیچھے ہٹ رہی تھی، لیکن اچانک ایک غیر متوقع سامنا ہو گیا، اور دونوں افواج کے درمیان دوبارہ جھڑپ شروع ہو گئی۔ یہ لمحہ اس بات کا امتحان تھا کہ حقیقی مجاہد وہی ہوتا ہے جو مشکل حالات میں بھی اپنے وطن کی حفاظت کے لیے ڈٹا رہے۔

سجاد حسین کے ساتھ ان کے گاؤں کے ساتھی بھی تھے.  ان کے  ساتھی نے کہا: "اب لڑائی نہیں لڑتے، موت آنی ہی ہے تو بی آر بی نہر میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ یوں گولی سے مرنے کے بجائے نہر میں ڈوب کر مر جائیں گے۔” لیکن سجاد حسین کا جواب ان کی غیر معمولی بہادری اور عزم کو ظاہر کرتا تھا۔ انہوں نے کہا: "نہیں! دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنا ہم جیسے مجاہدوں کا شیوہ ہے۔ ہم بزدلوں کی طرح موت کو گلے نہیں لگائیں گے، بلکہ لڑتے ہوئے شہید ہو جائیں گے۔”

سجاد حسین اور حوالدار ذاکر الرحمن نے دلیرانہ مقابلہ کیا۔ انہوں نے دشمن کے حملوں کا بہادری سے سامنا کیا اور اپنی بندوقوں سے دشمن کو نشانہ بناتے رہے۔ ان کا حوصلہ اور عزم دشمن کے لئے حیرت انگیز تھا، کیونکہ وہ ہر گولی  کا جواب اپنے جذبے اور ہمت سے دے رہے تھے۔ جنگ کی اس قیامت خیز فضاء میں، سجاد حسین نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر دشمن کا مقابلہ کیا اور اپنی آخری سانس تک لڑتے رہے۔

مگر جنگ کی اس قیامت میں قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ دشمن کی ایک گولی سجاد حسین کے سینے میں پیوست ہو گئی، اور وہ اپنے وطن کے لئے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت نے نہ صرف محاذ جنگ کو ایک اور ہیرو دیا بلکہ وطن کے لئے قربانی دینے کی ایک عظیم مثال قائم کی۔ وہ اپنی جان وطن پر قربان کر کے ہمیشہ کے لئے امر ہو گئے۔

شہید سجاد حسین کے والد منشی غلام حسین اور ان کے کزن بھائی حاجی سخی محمد حج بیت اللہ کیلئے جاتے وقت کی تصویر
سجاد حسین شہیدکے والد محترم منشی غلام حسین(دائیں طرف) اور ان کے کزن حاجی سخی محمد (بائیں طرف)

سجاد حسین کی آخری آرام گاہ

"سجاد حسین شہید جنگ ستمبر 1965” کی آخری آرام گاہ لاہور کے گنج شہیداں قبرستان میں بنائی گئی، جہاں ان کے بے شمار شہداء ساتھیوں کے ساتھ انہیں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی قربانی نہ صرف ان کی بہادری کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ یہ وطن کی محبت اور وفاداری کا ایک انمول نمونہ ہے۔ سجاد حسین کی دلیرانہ شہادت اور ان کے جنگی کارنامے ہمیشہ پاکستانی قوم کے دلوں میں زندہ رہیں گے، اور ان کا نام تاریخ کے سنہری اوراق میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔

سجاد حسین نے جس عزم، جرات اور وطن سے محبت کا مظاہرہ کیا، وہ ہر پاکستانی کے لئے ایک مثال ہے۔ ان کی قربانی نے ان کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا، اور وہ اپنے ملک کی جنگ لڑتے ہوئے ایک ہیرو کے طور پر شہید ہو گئے۔ ان کی داستان حب الوطنی اور دلیری کا ایک انمول باب ہے، جسے سن کر ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ ان کی یہ قربانی ہماری آنے والی نسلوں کو وطن کی محبت اور وفاداری کا سبق دیتی رہے گی۔

شہادت کی خبر: گاؤں کا سوگ اور صبر کا پہاڑ

ستمبر 1965ء کی جنگ کے دوران ذرائع مواصلات کی شدید کمی کے باعث محاذ جنگ سے خبریں بروقت گھروں تک نہیں پہنچ رہی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ سجاد حسین کی شہادت کی خبر بھی ان کے گھر تاخیر سے پہنچی۔ اس دوران ان کے گھر والے اور پورا گاؤں پریشانی میں مبتلا تھے۔ جب شہادت کی خبر پہنچی تو پورے گاؤں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ سجاد حسین ہر دل عزیز تھے، اور ان کی شہادت نے سب کو سوگوار کر دیا۔ ان کی قربانی نے گاؤں کے لوگوں کے دلوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا، اور ہر طرف غم و اندوہ کا عالم تھا۔

"سجاد حسین شہید جنگ ستمبر 1965” کے والد حاجی منشی غلام حسین، جو اپنے بیٹے سے بے پناہ محبت کرتے تھے، نے اس صدمے کو صبر و حوصلے کے ساتھ برداشت کیا۔ وہ سب کو دلاسا دیتے رہے اور کہتے کہ میرا بیٹا بہادر تھا اور اس نے وطن کی خاطر اپنی جان قربان کی، مجھے اپنے بیٹے کی بہادری پر فخر ہے۔ شہید کے بھائی مرید حسین شدید غم میں مبتلا تھے، جبکہ دوسرے بھائی عاشق حسین تو شہادت کی خبر سن کر بے ہوش ہو گئے۔ شہید کی بیوہ بھی شدید صدمے سے دوچار ہو چکی تھیں، اور ان کی بہنیں بھائی کی شہادت پر دکھ اور غم سے نڈھال تھیں۔ ان سب کے درمیان حاجی منشی غلام حسین واحد شخص تھے جو صبر کا پہاڑ بنے سب کو تسلی دے رہے تھے۔

حوالدار ذاکر الرحمن کا خط اور آمد

"سجاد حسین شہید جنگ ستمبر 1965” کے دیرینہ ساتھی حوالدار ذاکر الرحمن، جو شہادت کے وقت ان کے ساتھ تھے، نے سجاد حسین کے گھر ایک خط بھیجا۔ اس خط میں انہوں نے لکھا کہ وہ اور سجاد حسین سترہ دن کی جنگ کے دوران ہمیشہ ساتھ لڑتے رہے۔ حوالدار ذاکر الرحمن نے اپنے خط میں وعدہ کیا کہ وہ گھر واپس آ کر ان رازوں کو بیان کریں گے جو صرف سجاد حسین کے ساتھ ہی ان کے سینے میں دفن تھے۔

بعد ازاں، جب حوالدار ذاکر الرحمن خود گھر تشریف لائے تو ان کی دونوں ٹانگیں کٹی ہوئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران وہ اور سجاد حسین ہمیشہ ساتھ رہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم او پی ڈیوٹی پر مامور تھے۔ جنگ میں "سجاد حسین شہید جنگ ستمبر 1965” نے دشمن کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔ انہوں نے دشمن کی پوسٹوں کی اس طرح نشاندہی کی کہ دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔ جب ہم جنگ بندی کے بعد واپس آ رہے تھے تو بی آر بی کے ساتھ دشمن کی فوجیں واپس جا رہی تھیں۔ اس وقت ہمارے سامنے انتخاب تھا کہ ہم بی آر بی نہر میں چھلانگ لگا کر اپنی جان بچا لیں لیکن سجاد حسین نے صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ بزدلی کے بجائے دشمن سے لڑنا اور شہید ہونا بہتر ہے۔ اس معرکے میں سجاد حسین کو سینے میں گولی لگی اور وہ شہید ہو گئے، جبکہ حوالدار ذاکر الرحمن کی دونوں ٹانگیں شدید زخمی ہو گئیں اور بعد میں کاٹ دی گئیں۔

کرنل (ر) محمد سفیر تارڑ کے تاثرات

چتال کی معروف شخصیت کرنل امام (کرنل سلطان امیر تارڑ) کے چھوٹے بھائی، کرنل (ر) محمد سفیر تارڑ نے سجاد حسین شہید کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گورنمنٹ مڈل سکول چکرال کے مڈل شعبے میں تھے، جبکہ محمد سفیر تارڑ پرائمری شعبے میں تھے۔ سجاد حسین انتہائی جواں مرد، بہادر اور کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ کبڈی، ہائی جمپ اور دوڑ میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ ان کا قد لمبا، صحت مند جسم اور روشن رنگت ان کی شخصیت کو مزید پرکشش بناتے تھے۔ ان کی بارعب شخصیت اور مہارتوں کی وجہ سے ہر کوئی ان کا شیدائی تھا۔ وہ نہ صرف کھیلوں میں بلکہ کھیتوں میں کام کرنے میں بھی ماہر تھے۔ کرنل محمد سفیر تارڑ نے ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی، "اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے، آمین۔”

چکوال پلس یوٹیوب چینل کی ویڈیوز دیکھنے کیلئے اس لنک کو ، کلک کریں
جنگ ستمبر 1965 ءکی مزید تفصیل جاننے کیلئے اس لنک کو ، کلک کریں

 

شہید کے والد محترم منشی غلام حسین کی پیشگوئی اور احساسات

شہید سجاد حسین کے والد محترم، منشی غلام حسین، اپنے بچوں کو ایک واقعہ سناتے تھے جب سجاد حسین نوجوان تھے اور ان کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تھے۔ ایک دن، جب ان کی نظر سجاد حسین کے ماتھے پر پڑی تو انہیں محسوس ہوا کہ ایک روشنی ان کے ماتھے سے نکل رہی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کوئی انتہائی خوبصورت نوجوان ہیں۔ اس لمحے منشی غلام حسین نے اللہ سے دعا کی کہ ان کے بیٹے کو نظر بد سے محفوظ رکھے۔ جنگ کے دوران جب لڑائی عارضی طور پر بند ہو چکی تھی، منشی غلام حسین کے سینے میں ایک بے چینی سی محسوس ہو رہی تھی۔ انہیں ایسا لگا کہ کوئی بڑی مصیبت آنے والی ہے۔ یہ ان کی پیشگوئی تھی جو سجاد حسین کی شہادت کی صورت میں پوری ہوئی، حالانکہ اس وقت تک شہادت کی خبر نہیں پہنچی تھی۔

 شہداءپارک چکوال جہاں شہید سجاد حسین کے نام کی تختی بھی آویزاں ہے
شہداءپارک چکوال جہاں سجاد حسین شہید کے نام کی تختی بھی آویزاں ہے

جنگ کے بعد شہید کی یادیں اور قربانی کی عظمت

"سجاد حسین شہید جنگ ستمبر 1965″ کے کزن، حاجی سخی محمد، جو ان کے بہت قریب تھے، فوج میں بھرتی ہونے کے بعد ہمیشہ ان سے خط و کتابت کرتے رہتے تھے۔ محاذ جنگ سے بھی وہ پوسٹ کارڈز بھیجتے اور اپنے حالات بتاتے۔ ایک پوسٹ کارڈ میں انہوں نے لکھا تھا، بھائی”دعا کریں ہمیں فتح نصیب ہو، اگر دوران جنگ میں شہید ہو جاؤں تو غم نہ کرنا۔” جنگ کے بعد، حاجی سخی محمد نے کہا کہ انہیں اپنے بھائی کی شہادت پر فخر ہے اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کی یہ قربانی قبول فرمائے۔

جی ایچ کیو کی جانب سے شہید کی یاد

"سجاد حسین شہید جنگ ستمبر 1965” کی عظیم قربانی کو افواج پاکستان نے ہمیشہ یاد رکھا۔ ان کے والد منشی غلام حسین کو جی ایچ کیو میں کئی بار خصوصی دعوت دی گئی، جہاں شہید کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ یوم دفاع کے موقع پر بھی جی ایچ کیو میں خصوصی دعوتوں کا اہتمام کیا گیا، جن میں شہید کے بھائی عاشق حسین بھی شریک ہوتے رہے۔ اب جنگ کو تقریباً ساٹھ سال گزر چکے ہیں، اور شہید کے بہت سے قریبی رشتہ دار، جن میں والدین، بہنیں، اور بھائی شامل تھے، اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔

شہید کی یادگار: وفا اور احترام

"سجاد حسین شہید جنگ ستمبر 1965” کے ایک بھائی، ایک بہن، اور ان کی بیوہ، جو اب ان کے چھوٹے بھائی کی زوجہ ہیں، ابھی بھی حیات ہیں۔ اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی ان کی بیوہ نے ان کی تصویر اور کپڑے محفوظ کر رکھے ہیں، جو ان کی شہید سے وفا کی ایک علامت ہے۔ باقی تمام رشتہ دار، جو بعد میں پیدا ہوئے، صرف ان کی کہانیاں سن کر ہی ان کی عظیم شخصیت پر فخر کرتے ہیں۔

دعا

اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند کرے اور ان کی قربانی کو قبول فرمائے۔ دعا ہے کہ ملک عزیز پاکستان کو ہر قسم کے فتنوں، شر، اور دشمن کی شرانگیزیوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

Pak india war 1965 soldiers

 

یہ مضمون سجاد حسین شہید کے بھانجے، محمد فاروق منہاس (ایڈیٹر چکوال پلس ویب سائٹ) کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ تقریباً ساٹھ سال کے طویل عرصے کے بعد، اس واقعے کی سوفیصد درستگی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی، تاہم بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ مضمون میں شامل تمام معلومات حقیقت کے قریب تر ہوں۔ امید ہے کہ موضع چتال کے اس بہادر سپوت کی داستانِ شجاعت لوگوں تک پہنچے گی اور ان کی قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند کرے اور ہمیں بھی اپنے وطن کی خدمت اور اس کی حفاظت کے لیے آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے