افغان مہاجرین کی واپسی: پاکستان اور چین کی مشترکہ پالیسی کا نیا موڑ

Spread the love

افغان مہاجرین کی واپسی: پاکستان اور چین کی مشترکہ پالیسی کا نیا موڑ

پس منظر اور تاریخی جائزہ

 افغان مہاجرین’ پاکستان چین مشترکہ پالیسی.  افغانستان میں دہائیوں سے جاری جنگوں اور عدم استحکام کے باعث لاکھوں افغان شہری پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ 1980 کی دہائی میں سویت حملے کے بعد افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں داخل ہوئی.  اور بعد میں طالبان حکومت اور امریکی مداخلت کے نتیجے میں بھی ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ پاکستان نے انسانی ہمدردی کے تحت انہیں پناہ دی. لیکن اب حکومت پاکستان نے افغان شہریوں کی واپسی کے لیے ایک منظم حکمتِ عملی اپنانا شروع کر دی ہے۔

 افغان مہاجرین’ پاکستان چین مشترکہ پالیسی حکومتِ پاکستان کی پالیسی اور حالیہ اقدامات

 افغان مہاجرین’ پاکستان چین مشترکہ پالیسی پاکستانی حکومت نے 31 مارچ کو افغان مہاجرین کے انخلا کی آخری تاریخ مقرر کی تھی، جس کے بعد ملک بھر میں ان کی واپسی کا عمل تیز کر دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق، اب تک تقریباً 8 لاکھ 80 ہزار افغان شہری واپس جا چکے ہیں، جب کہ مزید مہاجرین کو بھی مرحلہ وار بھیجا جا رہا ہے۔ اس عمل کو مؤثر بنانے کے لیے حکومت نے ملک کے مختلف شہروں میں افغان مہاجرین کی فہرستیں مرتب کی تھیں اور ہر تھانے میں ان کے متعلق مکمل ریکارڈ رکھا گیا تھا۔

سرحدی نقل و حرکت اور انتظامات

حکومتِ پاکستان نے لنڈی کوتل سمیت مختلف سرحدی علاقوں میں خصوصی مراکز قائم کیے ہیں، جہاں مہاجرین کو عارضی طور پر رکھا جا رہا ہے۔ وہاں ان کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور بعد ازاں انہیں بسوں کے ذریعے افغانستان واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق، 105 افراد پر مشتمل مزید پانچ افغان خاندانوں کو لنڈی کوتل کے ذریعے افغانستان کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

چین کی پوزیشن: ایک نئی پیش رفت

 افغان مہاجرین’ پاکستان چین مشترکہ پالیسی گزشتہ چند برسوں میں چین نے افغانستان کے سیاسی معاملات میں محتاط رویہ اپنایا تھا.  اور بعض اوقات پاکستان کو افغان مہاجرین کے معاملے پر نرم رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتا رہا ہے۔ تاہم، اب چین نے پاکستان کے مؤقف کی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان واقعی پاکستان کے مقابلے میں زیادہ پرامن اور خوشحال ہے.  جیسا کہ طالبان حکومت دعویٰ کرتی ہے.  تو پھر افغان شہریوں کو وہاں واپس جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ چین نے اس حوالے سے پاکستان کے عملی اقدامات کی حمایت کے ساتھ ساتھ مالی اور انتظامی مدد بھی فراہم کی ہے.  خاص طور پر سرحدی مراکز میں سہولیات کی بہتری کے لیے تعاون کیا جا رہا ہے۔

 افغان مہاجرین’ پاکستان چین مشترکہ پالیسی طالبان حکومت پر بڑھتا ہوا سفارتی دباؤ

افغان مہاجرین کی واپسی کے ساتھ ساتھ پاکستان اور چین اب طالبان حکومت پر مزید دباؤ ڈال رہے ہیں.  کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گرد گروہوں.  خاص طور پر تحریکِ طالبان پاکستان (TTP)، کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دے۔ چین اس سلسلے میں طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے اور انہیں باور کرا رہا ہے.  کہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے.  تو نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی ان سے دور ہو سکتے ہیں۔

افغانستان کے لیے سفارتی چیلنجز

طالبان حکومت پہلے ہی ایران، تاجکستان اور ازبکستان جیسے . ہمسایہ ممالک کے ساتھ مثالی تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو طالبان حکومت کے لیے سفارتی حمایت اور تجارتی راہ داریاں فراہم کر رہا تھا۔ اگر پاکستان بھی ان سے ناراض ہو جاتا ہے، تو طالبان حکومت مزید تنہائی کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس لیے چین اور پاکستان دونوں نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گرد عناصر کو لگام دیں، تاکہ خطے میں امن اور استحکام قائم رہ سکے۔

 افغان مہاجرین’ پاکستان چین مشترکہ پالیسی مستقبل کا منظرنامہ

پاکستان میں افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل تیزی سے جاری ہے.  اور آنے والے دنوں میں مزید سخت اقدامات کیے جانے کا امکان ہے۔ چین کی شمولیت سے نہ صرف پاکستان کے مؤقف کو تقویت ملی ہے.  بلکہ طالبان حکومت کے لیے بھی یہ ایک واضح پیغام ہے . کہ اگر وہ اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرتے تو انہیں مزید سفارتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

نتیجہ

افغان مہاجرین کا معاملہ پاکستان کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ رہا ہے.  لیکن اب حکومتِ پاکستان نے اس کا مستقل حل نکالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چین کی حمایت سے یہ عمل مزید مؤثر ہوتا جا رہا ہے.  اور مستقبل میں دونوں ممالک اس پالیسی کو مزید سخت کر سکتے ہیں۔ افغان حکومت کے لیے اب یہ ضروری ہو چکا ہے . کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرے.  تاکہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی ان کے تعلقات بہتر ہو سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے