گمشدہ وقت کا مسافر : ایک تاریخی قصبے کی داستان”Historic Cultural Treasure”

Spread the love
Written and images by Muhammad Farooq Minhas, Author Chakwal Plus

چکوال اور اس کے نواحی علاقے ایسے تاریخی قصبوں کا گہوارہ ہیں جہاں ماضی کی بھولی بسری یادیں بے شمار داستانوں کی شکل میںدفن ہیں۔ ان قصبوں کی گلیاں اور کوچے، پرانی عمارتیں اور قدیم درخت، سب اپنے اندر ایک داستان لئے ہوئے ہیں، جو آج بھی سننے والے کے دلوں کو چھو جاتی ہیں۔ ہم ایک ایک کر کے ان قصبوں کی کہانیاں آپ تک پہنچائیں گے ، لیکن آج کی داستان کا آغاز ہم برصغیر کی تقسیم کے اس المناک واقع سے کریں گے جو 1947ءمیں وقوع پذیر ہوا ۔


برصغیر کی تقسیم، جو 1947 میں ہوئی ،دنیا کی سب سے بڑی اور خونریز ہجرتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس عظیم تقسیم نے نہ صرف کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو تبدیل کر دیا بلکہ ان گنت قصبوں اور شہروں کی ہیئت اور سماجی ڈھانچے کو بھی تبدیل کر دیا ۔ پاکستان اور ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایسا گاﺅں یا قصبہ ہو ،جہاں ہجرت کے زخم نہ لگے ہوں، جہاں کی زمین پر ان گنت کہانیاں نہ بکھری پڑی ہوں۔ جو وقت کے ساتھ مٹی میں دفن ہو چکی ہیں۔ پاکستان کے ضلع چکوال کے کئی ایک دیہات اور قصبے بھی اس عظیم تبدیلی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان میں سے ایک قصبہ ایسا بھی تھا جس کی گلیوں میں کبھی مسلمان، ہندو اور سکھوں کی صدائیں گونجتی تھیں۔
آج ہم آپ کو اس تاریخی قصبے کی جانب لے کر چلتے ہیں جو تاریخ کی دھند میں کھو چکا ہے۔ مگر اس کے نشان آج بھی موجود ہیں۔ وہی نشان جو ہمیں ماضی کی طرف لے جاتے ہیں ۔ جب یہاں کا ماحول ایک جیتی جاگتی تصویر تھا۔ جہاں ہر مذہب کے لوگ مل جل کر زندگی گزارتے تھے۔ اس قصبے میں آج بھی ہندوﺅں کا مندر، سکھوں کا گوردوارہ اور مسلمانوں کی قدیم مساجد یا تو موجود ہیں یا ان کی تاریخ کے نقوش مل جاتے ہیں۔

گزرے ہوئے وقت کی یادگار : ایک معمر شخص کی کہانی

بابا نذر حسین (جن کا تفصیلی تعارت مضمون کے آخر میں موجود ) جو اس قصبے کے ایک بزرگ ہیں، جنہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ قصبے کی تاریخ جمع کرنے اور سنانے میں گزارا ، ہمیں اس تاریخی قصبہ کے مختلف گوشوں کی سیر کرواتے ہیں۔ بابا نذر حسین نے گاﺅں کے ابتدائی تعارف میں بتایا کہ یہ گاﺅں ایک تاریخی قصبہ تھا۔ اس قصبہ میں بڑی سبزی منڈی،اسلحہ فیکٹری ، صرافہ بازار ، کپڑے کی مارکیٹیں اور بہت کچھ تھا۔ دور دراز کے لوگ اس تاریخی قصبہ میں آتے تھے۔ ان سب کی یادداشتوں میں وہ دن زندہ ہیں جب ہندو، مسلمان اور سکھ سب ایک ساتھ رہتے تھے ، خوشحال اور پرامن زندگی گزارتے تھے۔

ماضی کے گہرے کنویں اور دھرم سال کی کہانیاں

بابا نذر حسین ہمیں ایک قدیم مکان کی طرف لے جاتے ہیں جس کے قریب کبھی ہندوﺅں کا دھرم سال ہوا کرتا تھا۔ ان کے مطابق یہ دھرم سال قیام پاکستان کے وقت منہدم ہو گیا تھا، مگر اس کے سامنے اسی مکان میں ایک سو ہاتھ گہرا کنواں تھا جو کہ اس وقت کے لوگوں کے لئے پانی کا ایک اہم ذریعہ بھی تھا، وہ کنواں تقریباً 1970 ءتک فعال رہا اور اس کی گہرائی بہت زیادہ تھی۔ بابا نذر حسین بتاتے ہیں کہ اس کنویں کی خاصیت یہ تھی کہ اس گہرائی اتنی زیادہ تھی کہ نیچے کا پانی دیکھنے کیلئے خصوصاً کوشش کرنا پڑتی تھی تب جا کر کچھ حصہ نظر آتا تھا۔ اب یہ کنواں بند ہو چکا ماضی کی یاددگاروں میں شامل ہو چکا ہے ۔ یہ مکان کے صحن میں واقع تھا۔ اس ایک طرف مسجد بن گئی ہے ۔ اس مسجد کے ساتھ ہی بابا نذر حسین کا اپنا مکان بھی ہے۔

A well built of stone, deep and dry, covered with moss.

بابا نذر حسین کے مطابق، قیام پاکستان کے وقت ان کی عمر اتنی زیادہ نہیں تھی کہ وہ ہندوﺅں کو عبادت کرتے دیکھ سکے ہوں۔ وہ ان کی عبادت کے متعلق کچھ زیادہ نہیں جانتے۔ مگر انہوں نے بڑے بوڑھوں سے سنا کہ اس دھرم سال میں ہندو مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔ آج یہاں صرف یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں اور یہ جگہ ایک مسلمانوں کی عبادت گاہوں تک محدود ہو گئی ہے۔ اپنے ماضی کو صرف لوگوں کے ذہنوں تک ہی محدود کر کے رکھ دیا ہے۔

گوردوارہ کی کہانی : سکھوں کی عبادت گاہ

دھرم سال سے کچھ ہی فاصلے پر، سکھوں کا گوردوارہ موجود ہے جو آج بھی اپنی اصلی حالت میں کھڑا ہے۔ وقت کی دستک نے اس کی دیواروں کو بوسیدہ کر دیا ہے، مگر یہ اب بھی ایک مقدس جگہ کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اب یہ دھرم سال محکمہ اوقاف کے ماتحت ہے۔ بابا نذر حسین کے مطابق سکھوں کی تعداد اس قصبے میں خاصی تعداد میں

تھی۔ جو زیادہ تر زراعت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ ان کے رشتہ دار اور دوست و احباب دور دراز سے یہاں آتے تھے اور گوروارے میں عبادت کرتے تھے۔ لیکن اس عبادت گاہ میں صرف سکھ ہی عبادت کرتے تھے اور بڑے پر امن انداز میں کرتے تھے۔ باقی مسلمان اور ہندو ان کی عبادت گاہ میں نہیں جاتے تھے۔

جنج گھر (شادی ہال)

بابا نذر حسین کے مطابق سکھ برادری کے لوگ بڑے امیر کبیر تھے۔ انہوں نے ایک جنج گھر (شادی ہال ) بنایا ہوا تھا۔ جہاں شادی کی تقریبات ہوتی تھیں۔ اس میں تینوں قوموں کے لوگ شادیوں کی رسومات کرتے تھے اور کھانے پکاتے اور کھاتے تھے۔ لیکن تینوں کیلئے الگ الگ برتن اور کھانے ہوتے تھے۔ یقینا یہ جگہ ایک محبت بھی زندگی کی علامت تھی ، جہاں مختلف قوموں اور مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔
بابا نذر حسین مزید بتاتے ہیں کہ یہاں پر راتوں کو قیام کیلئے بھی خصوصی جگہیں بنائی گئی تھیں۔ جہاں سو سو لوگوں کی رہائشیں ، بستر اور کھانے کا سامان ہوتا تھا۔ جب بھی شادی ہوتی تھی ۔ دور دور سے رشتہ دار کئی کئی دن یہاں آ کر رہتے تھے۔ راتوں کو میلے کا سامان ہوتا تھا ، پوری پوری رات ہلہ گلہ ہوتا رہتا تھا۔ لوگ انجوائے کرتے تھے۔

قصبے کے گیٹ اور پانی کی کہانی

بابا نذر حسین ہمیں بتاتے ہیں کہ اس قصبے کے چار بڑے گیٹ تھے جہاں سے گاﺅں کے اندر داخل ہونے کا راستہ تھا۔ ان گیٹوں پر پہرے دار پہرہ دیتے تھے تاکہ کوئی ایسا شخص داخل نہ ہو جو گاﺅں والوں کا امن خراب کر سکے۔ اس گیٹ سے تمام لوگ داخل ہوتے تھے۔ یہاں پانی کی بہت کمی ہوتی تھی۔ لہٰذا مختلف جگہوں پر کنویں کھودے گئے تھے۔ ان کنوﺅں کو کابل کے پٹھانوں نے کھودا تھا، جو اس وقت کے ماہر کنواں ساز مانے جاتے تھے۔ ان کنوﺅں کی گہرائی بہت زیادہ تھی۔ اور یہ پورے قصبے کے لئے پانی کا ایک اہم ذریعہ بھی تھے۔ بابا نذر حسین کا کہنا ہے کہ اگر وہی لوگ آج بھی یہاں موجود ہوتے تو شاید یہ کنویں آج بھی فعال ہوتے ۔ افغانی پٹھانوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہر کچھ عرصہ بعد واپس آ کر ہم اس کی صفائی کر دیں گے۔ لیکن تقسیم کے بعد نہ بنانے والے واپس آئے اور نہ بنوانے والے۔ اس لئے یہ کنویں بند ہو گئے۔

نمبردار صوبہ: وفاداری کی ایک داستان

بابا نذر حسین نے ہمیں قصبے کے ایک تاریخی کردار ، نمبر دار صوبہ کی کہانی سناتے ہیں۔ صوبہ ایک مالدار سکھ تھا، اسکے پاس بڑی جائیداد تھی ، اس کی وفاداری اور زمین سے محبت کی مثالیں آج بھی لوگ دیتے ہیں۔ ایک دفعہ نمبردار صوبہ جو اپنی پالتو گھوڑی پر سوار ہو کر تاریخی قصبہ (ڈھڈیال) جہاں اس کے قریبی رشتہ دار رہائش پذیر تھے ان کے پاس گیا۔ جاتے ہوئے راستے میں اس کی گھوڑی کسی وجہ سے مر گئی۔ اس کے رشتہ داروں نے اسے مشورہ دیا کہ اسے یہیں پھینک دیں لیکن وفادار صوبہ نے ایسا نہ کیا ۔ اور چھکڑوں کی مدد سے اپنی گھوڑی کو اپنے قصبہ واپس لائے اور قریبی نالوں کے پاس آ کر گرایا تاکہ ان کے اپنے گاﺅں کے کتے اس کا گوشت کھائیں۔ کیونکہ اپنے گاﺅں کے کتوں کا گوشت کھانے کا حق زیادہ ہوتا ہے۔

اس تاریخی گاﺅں کی مکمل ویڈیو دیکھیں ۔ بابا نذر حسین کا مکمل تفصیلی انٹرویو ۔ لنک پر کلک کریں۔

https://youtu.be/GSmpVuoxjc0

ہندوﺅں اور سکھوں کی عبادت گاہیں ، اور رشتہ داروں کی آمد

سکھوں کے گوردوارہ آج بھی اچھی حالت میں موجود ہے ۔جس کو محکمہ اوقاف والے دیکھتے ہیں۔ جب کبھی بھی ہندو یا سکھ برادری کے لوگ ٹپاکستان آتے ہیں ، تو وہ اس قصبے کا دورہ بھی کرتے ۔ یہ لوگ اپنے اباﺅ اجداد کی یادیں تازہ کرتے ہیں اور اس گوردوارے کو بھی دیکھتے ہیں۔ بابا نذر حسین کا کہنا ہے کہ گوردوارہ کے ساتھ ہی ایک باغ بھی تھا جہاں بچے کھیلتے تھے اور بزرگ لوگ بیٹھ کر مذہبی کتابیں پڑھا کرتے اور مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔

مسجدوں کی تعمیر اور مسلمانوں کی آبادی

مسلمانوں کی تعداد اس قصبے میں دیگر مذاہب کے لوگوں کی نسبت بہت کم تھی۔ مگر ان کی موجودگی بھی قابل ذکر تھی۔ قصبے کی قدیم مسجدیں آج بھی اپنی جگہ قائم ہیں۔ جن کی تعمیرات میں اس وقت کے مسلمان معماروں نے حصہ لیا۔ بابا نذر بتاتے ہیں کہ مسلمان اپنی مساجد میں عبادت کرتے تھے۔ دوسرے گاﺅں سے عالم اور پیر صاحب آتے تھے لوگ ان کی باتیں بڑے غور و خو ض سے سنتے تھے۔

سکول، بازار اور کھوئی ہوئی رونقیں

بابا نذر حسین ہمیں بتاتے ہیں کہ اس قصبے میں ہندوﺅں اور سکھوں کے بڑے بڑے سکول تھے، جو آج کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ دونوں برادریوں کے سکول تھے جن میں ایک کی عمارت اب کھنڈر بن چکی ہے۔ دوسرے کو گرا کر وہاں پر مکان تعمیر کر لیا گیا ہے۔

تاریخی چوک اور چار گلیاں ،چار بازار

سکولوں کے سامنے ایک تاریخی چوک ہے۔ جہاں سے ایک طرف جو گلی نکلتی تھی ، وہ کسی زمانے میں صرافہ بازار ہوا کرتی تھیں۔ جہاں بڑے بڑے سنیاروں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ دور دور سے لوگ ان سے سونا خریدنے کے لئے آتے تھے۔


اس کے سامنے دوسری گلی تھی جہاں پر کپڑے کے تاجر تھے ، ہر قسم کا کپڑا موجود ہوتا تھا۔ اس وقت کا قیمتی کپڑا صرف ان ہی تاجروں سے ملتا تھا۔ ان کپڑوں کو خریدنے کے لئے پورے علاقہ سے لوگ یہاں پر آتے تھے۔
تیسری گلی میں سبزی منڈی ہوتی تھی۔ اس سبزی منڈی میں پورے علاقہ کی سبزیاں یہاں آتی تھیں۔ قریبی دیہات جن میں آڑا بشارت کے لوگ بھی شامل ہوتے تھے وہ یہاں آتے تھے۔ تجارت کرتے تھے۔ خریداری بھی کرتے تھے۔

سب سے بڑی اسلحہ فیکٹری

گلی کے نکر پر ایک بڑا گیٹ ہوا کرتا تھا۔ جہاں پر سیکورٹی والے بھی ہوتے تھے۔ اس سے آگے ایک بڑی اسلحہ فیکٹری کا گودام ہوتا تھا۔ جس میں بندوقیں اور گولہ بارود رکھا ہوا ہوتا تھا۔ عام لوگوں کو وہاں جانے کی پابندی تھی۔ صرف سیکورٹی کے ادارے ہی وہاں جا سکتے تھے۔ اس علاقے کا سارا اسلحہ گاڑیوں میں رکھ کر لاتے اور لے جاتے تھے۔

ماڑیاں ، مارکیٹیں اور فیکٹریاں

اس تاریخی قصبے کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں بڑی بڑی ماڑیاں (کوٹھیاں )بھی تھیں۔ اس کے علاوہ اس تاریخ ساز قصبہ میں بڑے بڑے بازار اور مارکیٹیں بھی تھیں۔ یہ قصبہ خاص اہمیت کا حامل تھا۔ اس میں بڑے بڑے تاجر ، صنعت کار اور سرمایہ کار رہتے تھے۔ اس لئے اس گاﺅں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

زمین میں مدفون سونے کے ذخائر

اس تاریخی قصبے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس میں سونے کے ذخائر دفن ہیں۔ اس کی تاریخی اہمیت اس لئے ہے کہ جب یہاں صرافہ بازار کے بڑے بڑے تاجر تقسیم کے وقت جا رہے تھے تو وہ ساتھ نہیں لے جاسکتے تھے۔ انہوں نے بڑے بڑے دیگچوں میں بھر کر مختلف حصوں میں دفن کر دیا جن پر کچھ نشانات لگا دیئے ان کا خیال تھا کہ شاید کچھ عرصہ کے بعد یہ جھگڑا ختم ہو جائے اور تمام لوگ اپنے اپنے علاقوں کو واپس آ جائیں تو ہم واپس آ کر اسلحہ نکال لیں گے۔ لیکن ان کی یہ مراد کبھی پوری نہ ہوئی۔ وہ دن کبھی واپس نہ آیا۔ آج تقریباً 77 سال گزر گئے ہیں۔

آخری انکشاف: قصبے کا نام جانیں

آخر ہم آپ کو بتا ہی دیتے ہیں کہ جس تاریخی قصبے کی داستان آپ نے پڑی ، وہ چکوال کا تاریخی قصبہ (سیدپور) ہے۔ سید پور جہلم روڈ میں خانپور سے تقریباً 6 کلومیٹر جنوب کی طرف واقع ہے۔ یہ قصبہ اپنی تاریخی اہمیت کی بناءپر آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ یہاں کی قدیم عمارتیں، گلیاں اور بازار آج بھی ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہیں۔

بابا نذر حسین ، ایک تاریخ ساز شخصیت

بابا نذر حسن ایک تجربہ کار اور معتبر بزرگ ہیں۔ جن کی عمر تقریباً 86 سال ہو چکی ہے۔ وہ اب بھی اپنے مویشیوں کے ساتھ سارا دن کھیتوں ، کھلیانوں ، پہاڑوں ، اور چراگاہوں میں ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں کلہاڑی ہوتی ہے۔ ان کو سارا دن مویشیوں کے ساتھ گھومتا ہوا ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی صحت ماشاءاللہ بہت اچھی ہے۔ وہ سارا دن پیدل چلتے ہیں۔ روزمرہ کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ انہیں اپنے علاقے کی تاریخ ازبر ہے۔ بیان کرنے کا طریقہ باکمال ، دلچسپ اور دلنشیں ہے۔

جب بابا نذر حسین اپنی یادیں تازہ کرتے ہیں تو ان کی باتوں میں ایسی دلچسپی ہوتی ہے۔ کہ سننے والا بے خود ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے گاﺅں اور اس کے ماضی کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے وہ خود ان لمحوں کے عینی شاہد ہوں۔ بابا نذر حسین نہ صرف بزرگوں کا احترام کرتے ہیں بلکہ بچوں اور جوانوں سے بھی بڑی محبت اور اپنائیت سے پیش آتے ہیں۔ ان کی یہ خصوصیات انہیں گاﺅں کے ہر فرد کے دل کے قریب رکھتی ہے۔

یہ کچھ احوال تھا ایک تاریخ ساز قصبہ سید پور(چکوال) کا ۔ امید ہے کہ آپ کو یہ پسند آئے گا۔ آپ اپنی آراءسے ضرور آگاہ کریں ۔ انشاءاللہ ہم آپ کو مزید تاریخی قصبوں کا احوال بھی بتائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے