چکوال اور اس کے نواحی علاقے ایسے تاریخی قصبوں کا گہوارہ ہیں جہاں ماضی کی بھولی بسری یادیں بے شمار داستانوں کی شکل میںدفن ہیں۔ ان قصبوں کی گلیاں اور کوچے، پرانی عمارتیں اور قدیم درخت، سب اپنے اندر ایک داستان لئے ہوئے ہیں، جو آج بھی سننے والے کے دلوں کو چھو جاتی ہیں۔ ہم ایک ایک کر کے ان قصبوں کی کہانیاں آپ تک پہنچائیں گے ، لیکن آج کی داستان کا آغاز ہم برصغیر کی تقسیم کے اس المناک واقع سے کریں گے جو 1947ءمیں وقوع پذیر ہوا ۔
برصغیر کی تقسیم، جو 1947 میں ہوئی ،دنیا کی سب سے بڑی اور خونریز ہجرتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس عظیم تقسیم نے نہ صرف کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو تبدیل کر دیا بلکہ ان گنت قصبوں اور شہروں کی ہیئت اور سماجی ڈھانچے کو بھی تبدیل کر دیا ۔ پاکستان اور ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایسا گاﺅں یا قصبہ ہو ،جہاں ہجرت کے زخم نہ لگے ہوں، جہاں کی زمین پر ان گنت کہانیاں نہ بکھری پڑی ہوں۔ جو وقت کے ساتھ مٹی میں دفن ہو چکی ہیں۔ پاکستان کے ضلع چکوال کے کئی ایک دیہات اور قصبے بھی اس عظیم تبدیلی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان میں سے ایک قصبہ ایسا بھی تھا جس کی گلیوں میں کبھی مسلمان، ہندو اور سکھوں کی صدائیں گونجتی تھیں۔
آج ہم آپ کو اس تاریخی قصبے کی جانب لے کر چلتے ہیں جو تاریخ کی دھند میں کھو چکا ہے۔ مگر اس کے نشان آج بھی موجود ہیں۔ وہی نشان جو ہمیں ماضی کی طرف لے جاتے ہیں ۔ جب یہاں کا ماحول ایک جیتی جاگتی تصویر تھا۔ جہاں ہر مذہب کے لوگ مل جل کر زندگی گزارتے تھے۔ اس قصبے میں آج بھی ہندوﺅں کا مندر، سکھوں کا گوردوارہ اور مسلمانوں کی قدیم مساجد یا تو موجود ہیں یا ان کی تاریخ کے نقوش مل جاتے ہیں۔
گزرے ہوئے وقت کی یادگار : ایک معمر شخص کی کہانی
بابا نذر حسین (جن کا تفصیلی تعارت مضمون کے آخر میں موجود ) جو اس قصبے کے ایک بزرگ ہیں، جنہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ قصبے کی تاریخ جمع کرنے اور سنانے میں گزارا ، ہمیں اس تاریخی قصبہ کے مختلف گوشوں کی سیر کرواتے ہیں۔ بابا نذر حسین نے گاﺅں کے ابتدائی تعارف میں بتایا کہ یہ گاﺅں ایک تاریخی قصبہ تھا۔ اس قصبہ میں بڑی سبزی منڈی،اسلحہ فیکٹری ، صرافہ بازار ، کپڑے کی مارکیٹیں اور بہت کچھ تھا۔ دور دراز کے لوگ اس تاریخی قصبہ میں آتے تھے۔ ان سب کی یادداشتوں میں وہ دن زندہ ہیں جب ہندو، مسلمان اور سکھ سب ایک ساتھ رہتے تھے ، خوشحال اور پرامن زندگی گزارتے تھے۔
ماضی کے گہرے کنویں اور دھرم سال کی کہانیاں
بابا نذر حسین ہمیں ایک قدیم مکان کی طرف لے جاتے ہیں جس کے قریب کبھی ہندوﺅں کا دھرم سال ہوا کرتا تھا۔ ان کے مطابق یہ دھرم سال قیام پاکستان کے وقت منہدم ہو گیا تھا، مگر اس کے سامنے اسی مکان میں ایک سو ہاتھ گہرا کنواں تھا جو کہ اس وقت کے لوگوں کے لئے پانی کا ایک اہم ذریعہ بھی تھا، وہ کنواں تقریباً 1970 ءتک فعال رہا اور اس کی گہرائی بہت زیادہ تھی۔ بابا نذر حسین بتاتے ہیں کہ اس کنویں کی خاصیت یہ تھی کہ اس گہرائی اتنی زیادہ تھی کہ نیچے کا پانی دیکھنے کیلئے خصوصاً کوشش کرنا پڑتی تھی تب جا کر کچھ حصہ نظر آتا تھا۔ اب یہ کنواں بند ہو چکا ماضی کی یاددگاروں میں شامل ہو چکا ہے ۔ یہ مکان کے صحن میں واقع تھا۔ اس ایک طرف مسجد بن گئی ہے ۔ اس مسجد کے ساتھ ہی بابا نذر حسین کا اپنا مکان بھی ہے۔
بابا نذر حسین کے مطابق، قیام پاکستان کے وقت ان کی عمر اتنی زیادہ نہیں تھی کہ وہ ہندوﺅں کو عبادت کرتے دیکھ سکے ہوں۔ وہ ان کی عبادت کے متعلق کچھ زیادہ نہیں جانتے۔ مگر انہوں نے بڑے بوڑھوں سے سنا کہ اس دھرم سال میں ہندو مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔ آج یہاں صرف یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں اور یہ جگہ ایک مسلمانوں کی عبادت گاہوں تک محدود ہو گئی ہے۔ اپنے ماضی کو صرف لوگوں کے ذہنوں تک ہی محدود کر کے رکھ دیا ہے۔
گوردوارہ کی کہانی : سکھوں کی عبادت گاہ
دھرم سال سے کچھ ہی فاصلے پر، سکھوں کا گوردوارہ موجود ہے جو آج بھی اپنی اصلی حالت میں کھڑا ہے۔ وقت کی دستک نے اس کی دیواروں کو بوسیدہ کر دیا ہے، مگر یہ اب بھی ایک مقدس جگہ کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اب یہ دھرم سال محکمہ اوقاف کے ماتحت ہے۔ بابا نذر حسین کے مطابق سکھوں کی تعداد اس قصبے میں خاصی تعداد میں
تھی۔ جو زیادہ تر زراعت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ ان کے رشتہ دار اور دوست و احباب دور دراز سے یہاں آتے تھے اور گوروارے میں عبادت کرتے تھے۔ لیکن اس عبادت گاہ میں صرف سکھ ہی عبادت کرتے تھے اور بڑے پر امن انداز میں کرتے تھے۔ باقی مسلمان اور ہندو ان کی عبادت گاہ میں نہیں جاتے تھے۔
جنج گھر (شادی ہال)
بابا نذر حسین کے مطابق سکھ برادری کے لوگ بڑے امیر کبیر تھے۔ انہوں نے ایک جنج گھر (شادی ہال ) بنایا ہوا تھا۔ جہاں شادی کی تقریبات ہوتی تھیں۔ اس میں تینوں قوموں کے لوگ شادیوں کی رسومات کرتے تھے اور کھانے پکاتے اور کھاتے تھے۔ لیکن تینوں کیلئے الگ الگ برتن اور کھانے ہوتے تھے۔ یقینا یہ جگہ ایک محبت بھی زندگی کی علامت تھی ، جہاں مختلف قوموں اور مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔
بابا نذر حسین مزید بتاتے ہیں کہ یہاں پر راتوں کو قیام کیلئے بھی خصوصی جگہیں بنائی گئی تھیں۔ جہاں سو سو لوگوں کی رہائشیں ، بستر اور کھانے کا سامان ہوتا تھا۔ جب بھی شادی ہوتی تھی ۔ دور دور سے رشتہ دار کئی کئی دن یہاں آ کر رہتے تھے۔ راتوں کو میلے کا سامان ہوتا تھا ، پوری پوری رات ہلہ گلہ ہوتا رہتا تھا۔ لوگ انجوائے کرتے تھے۔
قصبے کے گیٹ اور پانی کی کہانی
بابا نذر حسین ہمیں بتاتے ہیں کہ اس قصبے کے چار بڑے گیٹ تھے جہاں سے گاﺅں کے اندر داخل ہونے کا راستہ تھا۔ ان گیٹوں پر پہرے دار پہرہ دیتے تھے تاکہ کوئی ایسا شخص داخل نہ ہو جو گاﺅں والوں کا امن خراب کر سکے۔ اس گیٹ سے تمام لوگ داخل ہوتے تھے۔ یہاں پانی کی بہت کمی ہوتی تھی۔ لہٰذا مختلف جگہوں پر کنویں کھودے گئے تھے۔ ان کنوﺅں کو کابل کے پٹھانوں نے کھودا تھا، جو اس وقت کے ماہر کنواں ساز مانے جاتے تھے۔ ان کنوﺅں کی گہرائی بہت زیادہ تھی۔ اور یہ پورے قصبے کے لئے پانی کا ایک اہم ذریعہ بھی تھے۔ بابا نذر حسین کا کہنا ہے کہ اگر وہی لوگ آج بھی یہاں موجود ہوتے تو شاید یہ کنویں آج بھی فعال ہوتے ۔ افغانی پٹھانوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہر کچھ عرصہ بعد واپس آ کر ہم اس کی صفائی کر دیں گے۔ لیکن تقسیم کے بعد نہ بنانے والے واپس آئے اور نہ بنوانے والے۔ اس لئے یہ کنویں بند ہو گئے۔
نمبردار صوبہ: وفاداری کی ایک داستان
بابا نذر حسین نے ہمیں قصبے کے ایک تاریخی کردار ، نمبر دار صوبہ کی کہانی سناتے ہیں۔ صوبہ ایک مالدار سکھ تھا، اسکے پاس بڑی جائیداد تھی ، اس کی وفاداری اور زمین سے محبت کی مثالیں آج بھی لوگ دیتے ہیں۔ ایک دفعہ نمبردار صوبہ جو اپنی پالتو گھوڑی پر سوار ہو کر تاریخی قصبہ (ڈھڈیال) جہاں اس کے قریبی رشتہ دار رہائش پذیر تھے ان کے پاس گیا۔ جاتے ہوئے راستے میں اس کی گھوڑی کسی وجہ سے مر گئی۔ اس کے رشتہ داروں نے اسے مشورہ دیا کہ اسے یہیں پھینک دیں لیکن وفادار صوبہ نے ایسا نہ کیا ۔ اور چھکڑوں کی مدد سے اپنی گھوڑی کو اپنے قصبہ واپس لائے اور قریبی نالوں کے پاس آ کر گرایا تاکہ ان کے اپنے گاﺅں کے کتے اس کا گوشت کھائیں۔ کیونکہ اپنے گاﺅں کے کتوں کا گوشت کھانے کا حق زیادہ ہوتا ہے۔
اس تاریخی گاﺅں کی مکمل ویڈیو دیکھیں ۔ بابا نذر حسین کا مکمل تفصیلی انٹرویو ۔ لنک پر کلک کریں۔