کہتے ہیں کہ ریاست گوالیار میں نرور کوٹ ایک مشہور جگہ تھی۔ یہاں کے بادشاہ کا نام بٹنی تھا۔ یہ ریاست بڑی سرسبز شاداب تھی۔ لیکن ایک دفعہ بڑا زبردست قحط پڑ گیا اور قحط سالی کا یہ دور بارہ سال تک طویل رہا۔ رعیت کی تباہ حالی پر بادشاہ بڑا فکر مند رہنے لگا۔ ایک دن اس نے شاہی نجومی سے پوچھا کہ اس مصیبت کی وجہ کیا ہے؟ نجومی نے بتایا کہ اس ساری مصیبت کا باعث خود بادشاہ کی اپنی ذات ہے۔ بادشاہ نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کہ ہمارا لڑکا لڑکی تو ہے نہیں کیوں نہ ہم تخت و تاج کو چھوڑ کر کہیں دور چلے جائیں تاکہ ہماری رعیت سکھی اور خوشحال ہو جائے۔ ملکہ یہ بات مان گئی۔ چنانچہ وہ پھرتے پھراتے کلرکہار کے تخت پر راجا اللہ داد خان بیٹھا ہوا تھا وہ راجا کے دربار میں حاضر ہو گئے اور اپنی آپ بیتی عین بعین سنا دی۔ بادشاہ نے جب ان کی بپتا سنی تو اسے ان کے حال پر رحم آگیا۔ اس نے پوری پوری فراخدلی اور مہمان نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں شاہی محلوں میں بطور مہمان رہنے کی اجازت دے دی۔
ایک دن بھرے دربار میں راز و نیاز کی باتیں شروع کر دیں۔ راجہ اللہ داد خان نے بٹنی شاہ سے کہا کہ کیا اچھا ہو جو خدا تمہیں لڑکا دے اور مجھے لڑکی تاکہ ہم ان دونوں کی آپس میں شادی کر دیں۔ دونوں نے بڑے خشوع خضوع سے دعا مانگی جو بارگاہ الٰہی میں منظور ہو گئی۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد بٹنی شاہ کے ہاں لڑکا اور راجہ اللہ داد خان کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی لڑکے کا نام ڈھول اور لڑکی کا نام شمس رکھا گیا۔ پیدائش کے ساتویں دن قاضی بلایا گیا اور دونوں کا عقد باندھ دیا گیا۔
جب ڈھول کی عمر ایک مہینہ اور پانچ دن ہوئی تو بٹنی شاہ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ مجھے اپنا وطن چھوڑے تیرہ برس ہو گئے ہیں۔ پتہ نہیں ملک و رعیت کا کیا حال ہوگا ۔ بٹنی شاہ نے راجہ اللہ داد سے اس کا تذکرہ کیا اور وطن واپس لوٹنے کی اجازت حاجی جو بادل ناخواستہ دے دی گئی۔ بٹنی شاہ کلرکہار سے روانہ ہو کر اپنی ریاست میں پہنچا تو اس کی آمد کی خبر سن کر اس کی رعیت بڑی خوش ہوئی خاص کر جب انہیں یہ پتہ چلا کہ بادشاہ کے گھر شہزادہ ڈھول کی پیدائش بھی ہو چکی ہے۔
بٹنی شاہ کے چلے جانے پر راجہ اللہ داد خان چند دن تو بڑا اداس رہا لیکن آخر کار غلم غلط ہوگیا۔ اس اثناءمیں شمس رانی بھی پروان چڑھتے چڑھتے جوانی کی بہاریں لوٹنے کے قابل ہوگئی اور جذبہ عشق دل میں چٹکیاں لینے لگا۔ ایک دن وہ سہیلیوں میں گھری بیٹھی تھی جن میں سے کسی کی منگنی ہو چکی تھی اور کوئی بیاہی جانے والی تھی۔ شمس رانی نے دل میں سوچا کہ اگرچہ میری عمر چودہ سال کی ہو چکی ہے لیکن میرے والدین نے کبھی میری منگنی بیاہ کا ذکر تک نہیں کیا آخر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ یہ بات اس کے دل میں ایسی بیٹھی تھی کہ وہ ہر روز اداس رہنے لگی۔ آخر ایک دن اس کی ایک راز دار سہیلی نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ شمس کی دلگیری کا باعث کیا ہے۔ جب شمس نے اسے راز درونی سے آگاہ کیا تو اس نے شمس کو بتایا کہ پیدا ہوتے ہی تمہارا نکاح نہرور کوٹ کے شہزادہ ڈھول سے ہو چکا ہے جو کہ حسن و جمال کے لحاظ سے لاجواب ہے۔ جب یہ بات شمس نے سنی تو اس نے دل میں آتش عشق بھڑک اٹھی اور وہ ڈھول سے ملنے کے لئے بے چین ہوگئی۔
ایک دن شمس نے پنڈت سے فال نکلوائی کہ اس کی ملاقات ڈھول سے کب ہو گی؟ پنڈت نے اسے بتایا کہ تمہاری قسمت میں ایک ہرن کے ذریعے ملاقات لکھی ہے۔ ہرن کا نام ہیرا ہونا چاہئے۔ چنانچہ شمس نے باپ سے کہا کہ وہ اکیلی محلوں میں بیٹھ بیٹھ کر اداسی محسوس کرتی ہے۔ کھیلنے اور دل لہلانے کے لئے ایک ہرن کا بچہ ہونا چاہئے۔ بادشاہ نے شکاریوں کو حکم دیا اور دوسرے ہی دن شکاری ایک ہرن پکڑ کر لے آئے بادشاہ نے وہ شمس کے حوالے کر دیا جس نے بڑے چاﺅ سے اسے پالنا شروع کر دیا۔ اور اس کا نام ہیرا رکھ دیا۔ جب ہرن جوان ہو گیا تو شمس نے ایک خط لکھ کر اس کے حوالے کیا کہ جاﺅ نرور کوٹ سے ڈھول کو بلا لاﺅ۔
ہیرا ہرن خط لے کر نرور کوٹ کی طرف دوڑ پڑا۔ کوسوں کی مسافت طے کرنے کے بعد ایک دن شام کے وقت ہیرا شاہی باغ کی دیوار پھاند کر اندر گھس گیا اور ایک جھاڑی میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ صبح سویرے شہزادہ ڈھول اپنے طوطے جس کا نام موہنا تھا اس کے ہمراہ باغ میں آیا۔ اس نے ادھر ادھر ہرن کے کھروں کے نشانات دیکھے۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ ہرن کہاں سے آگیا۔ چنانچہ اس نے گھوم پھر کر تلاش کرنا شروع کر دیا اور آخر ایک جھاڑی میں اسے ہرن بیٹھا نظر آہی گیا۔ ڈھول نے ہرن کو پکڑنا چاہا لیکن وہ بھاگ کھڑا ہوا ۔ شہزادہ نے اس کے پیچھے گھوڑا دوڑا دیا۔ ہرن چوکڑیاں بھر کر ہوا سے باتیں کرنے لگا۔ لیکن ڈھول نے ہمت نہ ہاری اور اس نے بھی اسے زندہ پکڑنے ٹھان لی تھی۔ ہر چند شہزادے نے کوشش کی کہ اس کا گھوڑا ہرن تک پہنچ سکے۔ لیکن کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔ اسی تگ و دو میں سات دن گزر گئے۔ ساتویں روز ہیرا ہرن کلرکہار کی حدود میں پہنچ گیا۔ اب ڈھول نے محسوس کیا کہ ہرن ہاتھوں سے جا رہا ہے اس نے ایک تیر چلا دیا اور اسے زخمی کر دیا۔ تیر لگتے ہی ہرن تڑپنے لگا۔ جب ڈھول ہرن کے نزدیک پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ہرن تو دم توڑ چکا ہے لیکن اس کے سینگوں کے ساتھ ایک خط بندھا ہے شہزادہ نے جب خط کھول کرپڑھا تو وہ اسی کے نام تھا۔
ہرن کی موت کا شہزادے کو بڑا افسوس ہوا لیکن اب پچھتائے کیا ہوت، سامنے کلرکہار نظر آ رہا تھا۔ سستانے اور آرام کرنے کے لئے ڈھول اپنے طوطے کے ہمراہ کلرکہار میں داخل ہو گیا اور شمس کے باغ میں درخت کی ٹھنڈی چھاﺅں کے نیچے پلنگ پر دراز ہو گیا۔ منہ دوپٹہ سے ڈھانپ لیا۔ موہنا درخت کی ٹہنی پر بیٹھا رہا اور گھوڑا باغ میں چرنے لگا۔ گھوڑا کئی دنوں سے بھوکا تھا اس نے باغ میں تباہی مچا دی۔ باغ کے مالی نے جب یہ حالت دیکھی تو وہ روتا ہوا شمس رانی کے پاس پہنچا اور فریاد کی۔ شمس نے جب یہ سنا تو ساتھ سہیلیوں کی معیت میں باغ میں آئی۔ موہنے نے جب اس لاﺅ لشکر سمیت شمس کو آتے دیکھا تو آگے بڑھ کر رانی کو سلام کیا اور اپنی آمد کا سارا قصہ کہہ سنایا کہ کس طرح ہرن اسے نرور کوٹ سے کلرکہار لایا ہے۔ شمس ڈھول کو دیکھ کر بڑی خوش ہوئی اور اسے اپنے محل میں لے گئی۔ عیش و عشرت کے دن گزارنے لگے۔ عیش وصل کی گھڑیاں گزرتے دیر نہیں لگتی۔ آنکھ جھپکنے میں بارہ برس کا عرصہ گزر گیا۔
ادھر ڈھول شمس رانی کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا تھا ادھر ڈھول کے چچا حامد نے جو ایک آنکھ سے کانا تھا۔ اس کے باپ بٹنی شاہ کو زہر دے کر ہلاک کر دیا۔ اس ظالم اور غاصب نے ڈھول کی بہن والدہ اور دوسری بیویوں کو قید میں ڈال دیا۔ اور ان پر طرح طرح کے ظلم توڑنے لگا۔ اسی اثناءمیں ڈھول کے دل میں والدین کی محبت نے جوش مارا چنانچہ موہنا کو حال احوال معلوم کرنے کے لئے نرور کوٹ بھیجا گیا۔ چار دنوں کی اڑان کے بعد موہنا نرور کوٹ کی حد میں جا پہنچا۔ اور کانگ ارائیں کے کنویں پر ڈیرہ لگایا۔ وہاں کیا دیکھتا ہے کہ دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ مظلوم حامد شاہ کی دہائی دے رہا تھا۔ موہنا ملکی انقلاب کو سمجھ گیا اور اس نے کانگ ارائیں سے پوچھا تو کانگ نے سارا قصہ کہہ سنایا ڈھول کے عزیزوں پر جو کچھ بیت رہی تھی ۔ موہنا نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا صورتحال دگرگوں دیکھ کر بے تاب ہو گیا۔ حامد شاہ کے دربار میں جا دھمکا اور لعن طعن کرنے لگا۔ حامد شاہ نے تاڑ لیا کہ یہ ڈھول کے گن گا کر ملک میں بغاوت پھیلائے گا۔ اس نے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ لوگوں نے اسے پکڑنے کے لاکھ جتن کئے لیکن ناکام رہے۔ موہنا وہاں سے بھاگ کر کلرکہار میں آگیا اور ڈھول کو تمام کہانی کہہ سنائی اس پر ڈھول نے وطن جانے کی ٹھان لی۔ لیکن شمس رانی اس کے راستے میں دیوار بن گئی۔ اور وہ ایک پل کے لئے بھی اسے اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔
بمشکل تمام آخر ایک رات شمس کو روتا چھوڑ کر ڈھول موہنے کے ساتھ چل دیا لیکن رات کی تاریکی اور موسلا دھار بارش کی بے پناہ بوچھاڑ سے راستہ بھول گیا اور نرور کوٹ کی بجائے ملتان کے راستے پر ہو پڑا۔ 1390 ءکا سن تھا امیر تیمور گورگانی نے برصغیر پر حملہ کر رکھا تھا اور اس کی فوجیں دریائے جہلم اور چناب کے سنگم پر واقع موضع تلمبہ پر پڑاﺅ ڈالے ہوئے تھیں۔ ڈھول کو تیموری لشکر نے گرفتار کر لیا تھا۔ اس کی گرفتاری میں آتما وزیر کا ہاتھ جو اس کے باپ بٹنی شاہ سے غداری کر کے تیمور بادشاہ کی ملازمت میں آچکا تھا۔
قید خانے میں رات کو ڈھول نے اپنے ماں باپ کو خواب میں دیکھا ۔انہوں نے اسے ہدایت کی کہ کلرکہار سے شمس رانی کو بلا بھیجو تمہیں رہائی مل جائے گی۔ چنانچہ صبح سویرے موہنے کو شمس کے پاس بھیجا جس نے سارا ماجرا بیان کیا۔ شمس نے مردانہ بھیس بدل کر امیر تیمور سے درخواست کی کہ وہ تمہارے قیدیوں کو کھانا کھلانا چاہتی ہے۔ کیونکہ اس نے نذر مان رکھی تھی۔ موہنے نے اسے یہ سمجھایا کہ بادشاہ سے یہ بھی کہنا ہے کہ میں نے ایک غلام بھی خریدنا ہے اور اس طرح ڈھول کو خرید لینا۔
چنانچہ رانی نے سترلعل کے عوض میں ڈھول خرید لیا اور وہاں سے چل پڑے۔ راستے میں ایک نائی ملا۔ اس نے دربار میں جا کر مخبری کر دی۔ کہ وہ حاجن دراصل کلرکہار کے بادشاہ اللہ داد خان کی بیٹی شمس رانی ہے اور اس کا زرخرید غلام نرور کوٹ کا شہزادہ ڈھول ہے۔ بادشاہ کو پہلے ہی شک تو تھا لیکن آتما وزیر کی تصدیق پر اسے پختہ یقین ہو گیا۔ بدشاہ نے فوجوں کو حکم دیا کہ انہیں گھیر لیں۔ لیکن کوئی آدمی ڈھول کو تیر یار بندوق سے ہلاک نہ کرے۔ زندہ پکڑنے کی کوشش کی جائے۔
اس دوران تائید غیبی ڈھول کے شامل حال ہوگئی۔ موہنا سیمرغوں کی فوج لے آیا۔ انہوں نے آتے ہی تیمور کے لشکریوں کو کھانا شروع کر دیا۔ تیمور ڈر گیا اور ڈھول سے صلح کر لی۔ نذر نیاز گزار کر جان چھڑوائی ۔ تیمور نے ہیرے جواہرات سے جڑی ایک کمان بطور تحفہ ڈھول کو دی۔
وہاں سے چلے تو نرور کوٹ کے قریب جا پہنچے۔ پہلے حالات معلوم کرنے کے لئے انہوں نے موہنا کو بھیجا اس نے ایک مٹی والے سے پوچھا تو پتہ چلا کہ وہاں تو کایا ہی پلٹ چکی ہے۔ ڈھول کا نام لینے والے کو تہ تیغ کر دیا جاتا ہے۔ آخر تینوں ایک مراسی کے گھر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ مراسی کی ببیوی نے لالچ میں آکر راز افشا کر دیا۔ ڈھول کا ایک خیرخواہ دوڑا آیا اور انہیں مراسیوں کے گھر سے نکال کر اپنے گھر لے گیا۔ حامد شاہ کی فوج تلاشی لینے کی خاطر مراسی کے گھر آئی لیکن ڈھول اور اس کے ساتھیوں کو وہاں نہ پا کر غصے سے واپس لوٹ گئی۔ اور مراسن کو جھوٹا قرار دے کر اس کی بڑی بے عزتی کی گئی۔ اتنے میں رات ہوگئی اور اس کے خیر خواہ نے انہیں پچھلی دیوار سے دروازہ نکال کر باہر جانے کی سہولت مہیا کر دی۔
وہ بھوکے پیاسے گرتے پڑتے ایک سنسان جنگل میں جا نکلے اور ایک ویران کنویں پر ڈیرا لگا دیا۔ آخر کب تک بھوک پیاس کا مقابلہ کرتے۔ شمس رانی نے محنت مزدوری کرنے کی ٹھانی اور وہ موہنے طوطے کو لے کر کمہاروں کے گھر جانکی۔ اور التجا کی کہ اس طوطے کے عوض اسے مٹی کا ایک گھڑا دے دیا جائے۔ کمہاروں نے مان لیا اور یہ گھڑا لے کر شاہی اصطبل میں پانی بھرنے لگی۔ لیکن تین دن تک اسے مزدوری کا کوئی پیسہ نہ ملا۔ بیچاروں کا برا حال ہوگیا۔
ادھر مراسن جو جھوٹی قرار دی گئی تھی وہ ڈھول اور شمس کی تلاش میں رات دن ایک کئے ہوئے تھے۔ آخر اس نے ڈھول کو ویران کنویں پر دیکھ لیا۔ وہ دوڑی دوڑی حامد کانا کی کچہری میں جا پہنچی اور رپورٹ کر دی کہ اس نے ڈھول کو ڈھونڈ نکالا ہے۔ اگر ابھی بادشاہ اس کے ساتھ چلے تو وہ اسے پکڑوا سکتی ہے اس عرصہ میں میں نے یہ پتہ بھی لگا لیا تھا کہ شمس مزدور بن کر شاہی اصطبل میں کام کر رہی ہے۔ چنانچہ اس مراسن کی مخبری اور نشاندہی پر ان دونوں کو گرفتار کر کے سخت عذاب میں مبتلا کر دیا گیا۔ بعد میں طے پایا کہ ڈھول کو کسی اندھے کنویں میں پھینک دیا جائے۔
کرنا خدا کا کیا ہوا کہ جب غاصب حامد شاہ کے آدمی ڈھول کو کنویں میں پھینکنے کے لئے لائے تو ابوہرکا بادشاہ عبداللہ کا گزر ادھر سے ہوا۔ عبداللہ شاہ اور بٹنی شاہ آپس میں گہرے دوست اور دستار بدل بھائی تھے حلیف بھی تھے۔ اس کی آمد سے حامد شاہ بڑا خوفزدہ ہوا اور وزیر کے مشورہ پر اس نے ڈںھول کو رہا کر دیا اور اپنی جان بخشی کے لئے ڈھول ہی کو سفیر بنا کر عبداللہ شاہ کے پاس بھیج دیا۔ عبداللہ شاہ نے خیر خیریت پوچھی تو اسے بتایا گیا کہ بٹنی شاہ عرصہ ہوا فوت ہو چکا ہے۔ اب صرف شہزادہ ڈھول ہی اس کی نشانی باقی رہ گیا ہے۔ وہ ڈھول سے مل کر بڑا خوش ہوا اور اسے اپنے ہمراہ ابوہر لے چلنے پر تیار ہو گیا۔ شمس رانی کو کچھ عرصہ کے لئے واپس کلرکہار بھیج دیا گیا۔
کچھ مدت کے بعد عبداللہ شاہ لاولد فوت ہوگیا۔ حسب وصیت ڈھول ہی کو تخت پر بٹھایا گیا۔ جب حالات سدھر گئے تو ڈھول بادشاہ نے شمس رانی کو کلرکہار سے بلا بھیجا قاصد اونٹ پر سوار ہو کر کلرکہار آیا شمس کو ڈھول کا لکھا ہوا خط دیا۔ رانی چلنے پر تیار ہوگئی۔ رات ہوتے ہی رانی اونٹ پر سوار ہو کر چل پڑی۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ راستے میں اونٹ کسی چیز سے بدک گیا اور بے مہار ہو کر دوڑ اٹھا۔ رانی شمس بڑی گھبرائی۔ اس نے اونٹ کو قابو میں لانے کی لاکھ تدبیریں کیں لیکن تمام حربے بے سود۔ بعد ازاں اونٹ کی مہار کسی درخت کی ٹہنی سے الجھ کر اٹک گئی۔ اونٹ کھڑا ہو گیا۔ اور شمس نے ہمت کر کے مہار سنبھال لی اور اونٹ کو قابو میں کر لیا۔
جب چاند نکل آیا تو شمس نے اونٹ کو صحیح راستے پر ڈال دیا۔ راستے میں چوروں سے واسطہ پڑا انہوں نے اسے اکیلے دیکھ کر لوٹنا چاہا لیکن لالچ بری بلا ہے وہ مال کی تقسیم کے سلسلہ میں باہم جھگڑ پڑے۔ اور آپس میں لڑ بھڑ کر ختم ہو گئے۔ شمس نے انہیں وہیں مردہ چھوڑ کر اپنی راہ لی۔
راستے میں کیا دیکھتی ہے کہ دو فقیر عورتیں ایک جگہ بیٹھی رونے دھونے میں مصروف ہیں اور وہ ہمہ تن زباں بن کر ڈھول کے گلے شکوے کر رہی تھیں۔ جب رانی شمس نے ان کی باتیں سنیں تو اسے تجسس ہوا جب اس نے ذرا زیادہ ٹوہ لگائی تو پتہ چلا کہ وہ لعلاں اور مہراں ہیں جو کہ ڈھول کی پہلی بیویاں ہیں۔ انہوں نے ازراہ شکایت یہ بھی کہا کہ کلرکہار کی شمس رانی نے ہمارا ڈھول چھین لیا ہے یہ سن کر اس سے رہا نہ گیا اور اس نے ان پر اپنا آپ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میں ہی شمس رانی ہوں اور تمہاری طرح اس کے ہجرو فراق میں دکھ تکلیف برداشت کر رہی ہوں۔ اس پر وہ دونوں اس کے گلے سے لپٹ گئیں اور زارو زار روئیںجب جی کچھ ہلکا ہوا تو تینوں اونٹ پر سوار ہو کر ڈھول کی طرف روانہ ہو پڑیں۔ آخر وہ ڈھول کی مملکت کی سرحد تک جا پہنچیں اور ایک درخت کے نیچے ڈیرہ لگا دیا۔ وہاں سے ایک لڑکا گزرا اس سے انہوں نے پوچھا کہ یہاں کا والی کون ہے۔ لڑکے نے بتایا کہ نرور کوٹ کا راجہ یہاں کا حاکم ہے۔ انہوںنے بڑی خوشی حاصل ہوئی کہ اب ہماری مصیتیں شاید ختم ہو جائیں گی۔
سہ پہر کو ڈھول بادشاہ شکار کیلئے شہر سے باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ شاہی اونٹ جو شمس کو لینے گیا تھا وہ ایک درخت کے ساتھ بندھا ہوا ہے اور ساتھ ہی اس کی نظر درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تین عورتوں پر بھی پڑی۔ فوراً گھوڑے سے اترا اور حکم دیا کہ کوئی دوسرا اس طرف نہ آئے۔ خود ان کے پاس گیا فریقین نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ فوراً محلات میں آئے۔ سب کے غم غلط ہوگئے۔ لیکن حامد کانا کا ظلم و ستم ایک کانٹا تھا جو ابھی تک گلے میں اٹکا ہوا تھا۔ بدلہ لینے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ حامد پر حملہ کیا گیا اور اسے شکست ہوئی۔ ڈھول نے نرور کوٹ پر قبضہ کر کے اپنی حکومت کا سکہ چلا لیا۔ اور اپنے عزیزوں کو جیل کی کوٹھڑیوں سے نکال کر اپنی خوشیوں میں اضافہ کرلیا۔
کہا جاتا ہے کہ کچھ مدت حکومت کرنے کے بعد شمس اور ڈھول حکومت چھوڑ کر فقیر بن گئے اور کلرکہار کے علاقے میں چلے آئے اور یہیں فوت ہوگئے۔
پروفیسر انور بیگ آوان کی کتاب(دھن ملوکی ) سے ماخوذ
یہ کہانی کلرکہار سے متعلق ایک روایتی کہانی ہے۔ اس کہانی کی تحقیق کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں، اور اس کی صداقت کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ تاہم، یہ ایک ادبی تخلیق ہے اور اس کو اسی طرح سمجھا جانا چاہیے۔ اگر کوئی فرد اس کہانی کے بارے میں مکمل اور مصدقہ معلومات رکھتا ہے یا اس کہانی کو ناقص سمجھتا ہے، تو وہ اپنی رائے کا اظہار کرنے میں آزاد ہے۔ ہم ان کی رائے کا احترام کریں گے اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔