خواجہ دانیال سلیم چکوال کا ایک معتبر نام ہیں۔ وہ ایک صحافی، شاعر، تجزیہ نگار اور تاریخ کا گہرا علم رکھنے والے ہیں۔ ان کی بیان کردہ کہانیوں میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے جو چکوال کی روحانی تاریخ کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ کہانی، جسے خواجہ دانیال سلیم نے بیان کیا ہے، ان کے مطابق درست ہے لیکن قارئین اپنی رائے میں آزاد ہیں کہ اس کہانی کو کس حد تک قبول کرتے ہیں۔
چکوال کے پہاڑی علاقے، جو کہ سناٹے میں لپٹے ہوئے ہیں، اللہ کے ولیوں کی چلہ گاہیں ہیں۔ ان پہاڑیوں میں خوفناک سناٹے میں اللہ کے ولیوں نے اپنی روحانی محنت اور عبادت کے لئے یہاں کا انتخاب کیا۔ ان ولیوں میں ایک نام سلطان باہو کا بھی ہے، جنہوں نے یہاں چلہ کشی کی۔
سلطان باہو، جو جھنگ سے آئے تھے، کلرکہار کی پہاڑیوں میں چلہ کشی کے لئے مقیم تھے۔ ان کے روحانی کمالات کی شہرت بغداد تک پہنچی، جہاں سے ایک بزرگ، باہو سرکار، ان سے ملنے آئے۔ باہو سرکار نے بغداد سے جھنگ کا سفر کیا اور وہاں سے کلرکہار پہنچے۔
جب باہو سرکار کلرکہار پہنچے تو سلطان باہو نے انہیں بتایا کہ وہ چلہ کشی میں مصروف ہیں اور ان سے ملاقات نہیں کر سکتے۔ باہو سرکار نے چالیس دن کے انتظار کا عزم کر لیا اور چلہ گاہ کے باہر بیٹھ گئے۔ چالیس دن بعد، جب سلطان باہو اپنے چلہ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے باہو سرکار سے ملاقات کی۔
خواجہ دانیال سے پوری کہانی سننے کیلئے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔ اور کہانی سنیں۔
https://youtu.be/FeoCyNQ5YIs
باہو سرکار نے سلطان باہو سے پوچھا کہ کیا وہ بھی چلہ کے دوران بھوکے رہتے ہیں یا کچھ کھاتے پیتے ہیں؟ سلطان باہو نے بتایا کہ ایک ہرن آتا ہے جس کے سینگوں پر کھانا بندھا ہوتا ہے۔ یہ سن کر باہو سرکار حیران ہوئے کہ جنگلی ہرن ان کے لئے کھانا لاتا ہے۔ سلطان باہو نے اس بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے اللہ کا ذکر شروع کیا اور ہرن وجد میں آ کر جھومنے لگا۔ ہرن کے وجد میں آ کر گھومتے ہوئے گرنے اور مرنے پر، دونوں باہو حضرات نے ہرن کی قبر کھودی اور اسے دفن کر دیا۔
یہ جگہ اب آہو باہو کے مزار کے نام سے جانی جاتی ہے۔ خواجہ دانیال سلیم کہتے ہیں کہ جب وہ چھوٹے تھے تو انہوں نے خود مزار پر جا کر دیکھا کہ وہاں ایک چھوٹی قبر مشرق مغرب کی سمت میں تھی اور شمالاً جنوباً باہو سرکار کی قبر تھی، جو کہ لمبی قبر تھی۔ آج سے تیس چالیس سال پہلے تک اسے آہو باہو کا مزار کہا جاتا تھا۔
لیکن اب، چندے کے چکر میں، اس تاریخ کو مسخ کر دیا گیا ہے اور دونوں قبروں کو ایک جیسا بنا دیا گیا ہے۔ دانیال سلیم کے مطابق، لوگوں کے دلوں میں آہو باہو کی کہانی آج بھی زندہ ہے۔ اسی طرح، بابا فرید بھی پاک پتن سے یہاں آئے تھے اور ان کی چلہ گاہ بھی یہاں موجود ہے، جس کا ذکر وہ اپنی اگلی کہانی میں کریں گے۔
آہو باہو کی کہانی آج بھی چکوال کے دلوں میں زندہ ہے۔ اس کہانی نے چکوال کی پہچان کو ایک نئی زندگی بخشی ہے۔ اس کے کردار، ان کی روحانی محنت اور اللہ کی محبت نے لوگوں کے دلوں میں ایک خاص مقام پیدا کیا ہے۔ آج بھی جب لوگ آہو باہو کے مزار پر جاتے ہیں تو وہ اس کہانی کو یاد کرتے ہیں اور اس سے روحانی سکون حاصل کرتے ہیں۔ یہ کہانی، جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوئی ہے، آج بھی اپنی اصل شکل میں دلوں میں بسی ہوئی ہے۔
خواجہ دانیال سلیم نے اس کہانی کو اپنی زبانی سناتے ہوئے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ان کے مطابق، یہ کہانی چکوال کی روحانی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔