’’اقبال اور چکوال‘‘از ملک محمد صفدر فیضی پرایک اجمالی نظر

Spread the love

ضلع چکوال خطہ پرجمال کے بہادر سپوتوں نے جہاں شجاعتوں کی تاریخ رقم کی وہاں اس علاقہ کے اہل علم و اہل قلم نے شعر و ادب کے گلستاں کی مسلسل آبیاری کی اور چمنستان اردو کو ہرا بھرا رکھنے اور اس کی رونق کو قائم رکھنے میں اپنا خونِ جگر صرف کیا۔مقامی شعرا اورادباء کے علاوہ باہر سے بھی لوگ یہاں تشریف لائے ان کی آمد سے بھی چکوال کی علمی و ادبی فضا میں خوشگوار تبدیلیاں ہوئیں۔

پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود
یونیورسٹی آف چکوال

چند روز قبل ملک محمد صفدر فیضی صاحب نے بذریعہ فون اپنی نئی تحقیقی کتاب’’اقبال اور چکوال‘‘کی اشاعت کی نوید سنائی اور پھر اگلے ہی روز بذریعہ ڈاک ملک صاحب کی گراں قدر کاوش موصول ہو کر نظر نواز ہوئی اسے دیکھ کر تحقیق کے ساتھ ملک صاحب کے غیر معمولی شغف اور دلچسپی کا اندازہ ہوا تحقیق ایک مشکل،محنت طلب اور صبر آزما کام ہے۔سب سے پہلے تحقیق کے لیے موضوع کا انتخاب کرنا، مواد کی تلاش کے لیے لائبریریوں کی خاک چھاننا،حقائق کی جانچ اور ان کی بازیافت کرنا،اختصار اور جامعیت کے ساتھ انہیں سمیٹنا اور پھر سلیقے سے قاری کے سامنے پیش کرنا یقینا دشوار طلب کام ہے۔ملک صاحب اس پل صرط کو کامیابی سے عبور کر چکے ہیں اقبالیات ایک وسیع موضوع ہے استاد گرامی ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے مطابق تقریبا35زبانوں میں علامہ کی نظم و نثر کے تراجم ہو چکے ہیں اور مجموعاً اقبالیات پر چھوٹی بڑی دو ہزار کتب منصہ شہود پر آچکی ہیں۔جناب ملک محمد صفدر فیضی ایڈووکیٹ کا تعلق چکوال کے تاریخی قصبے بھون سے ہے یہ قصبہ عہد قدیم سے ہی علاقہ دھنی ضلع چکوال کے ماتھے کا جھومر کے طور پر شہرت عام کا حامل چلا آ رہا ہے۔1880ء کی مطبوعہ تاریخ جہلم از مرزا محمد اعظم بیگ کے مطابق اس قصبے کا موازنہ آج کے چکوال شہر کے ساتھ کیا جائے تو بڑی دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے۔1880میں چکوال شہر1202گھروں پر مشتمل تھا۔جن میں سے135پختہ اور1067خام تھے۔آبادی5723افراد پر مشتمل تھی۔جبکہ قصبہ بھون کے گھروں کی تعداد 1227تھی جن میں سے 225پختہ اور 1002کچے گھر تھے۔آبادی 6019تھی۔
فیضی صاحب کا تعلق بھون کے اس مشہور خانوادے سے ہے جس کا امتیاز انور بیگ آوان جیسے اعلیٰ درجے کے محقق و مصنف ،شورش ملک جیسے نامور صحافی اور حکیم ملک محمد اورنگزیب جیسے صاحب سلسلہ صوفی بزرگ ہیں۔حالات کے تیز و تند جھونکے بعض اوقات انسان کو برگ آوارہ کی طرح اڑائے لیے پھرتے ہیں اور کہیں سے کہیں پہنچا دیتے ہیں ملک صاحب بھی تاریخی قصبہ بھون سے مدینۃ الاولیا ملتان جا پہنچے مگر ان کی قلبی وابستگی اپنی جنم بھومی سے اس طرح قائم ودائم ہے اور مٹی کی محبت انہیں وقتاً فوقتاً یہاں کھینچ لاتی ہے اور ہمیں بھی شرف ملاقات حاصل ہوتا ہے۔ملک صاحب وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں اور یہی وجہ ہے کہ استاد محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب نے اس کتاب کے دیباچے میں خاص طور پر تحریر فرمایا ہے کہ فیضی صاحب نے ایک وکیل ہوتے ہوئے وہ کام کیا ہے جو بالعموم اساتذہ ،پروفیسر اور محقق سرانجام دیتے ہیں اس لیے آپ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
فیضی صاحب اس سے قبل اپنی پنجابی تصنیف ـــ’’رتا رومال‘‘میں بھون اور کریالہ کے دو تاریخی کرداروں بھائی مال مکند اور رام مکھی کی تاریخی داستان مع قصبہ بھون کی مختصر تاریخ کو منظوم انداز میں زیب قرطاس بنا کر قارئین سے داد وصول کر چکے ہیں پیش نظر کتاب اقبال اور چکوال کے دو حصے ہیں پہلے حصے میں ملک صاحب نے علامہ اقبال کی شخصیت اپنی ذاتی مماثلتیں اقبال اور میں کے عنوان سے قلم بند کی ہیں ازاں بعد علامہ کی سوانح کو اجاگر کیا ہے دوسرے حصے میں بھون کے نامور صحافی راجہ غلام حسین علیگ،قلندر زماں حضرت شاہ اسدالرحمن قدسی،آستانہ قدسی بھون،چوہدری ذکا اللہ بسمل،ماسٹر شرف دین ،خواجہ عبدالحمید عرفانی،ڈاکٹر راجہ غلام سرور علیگ،سید علی عباس جلالپوری،پروفیسر انور بخشی،نعیم صدیقی،شیخ سراج الدین،محمد غالب اشک صحرائی،پروفیسر انور بیگ آوان،ممتاز انگریزی متراجم،بریگیڈیئر خواجہ طارق محمود،سید منظور حیدر شاہ،استاد گرامی پروفیسر خواجہ محمد عثمان،ڈاکٹر تصدق حسین راجا،پروفیسر حمید اللہ ہاشمی،فتح محمد ملک،راجہ رشید محمود،ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی جیسے علمائے علم وادب کے علامہ محمد اقبال کے ساتھ تعلق کے حوالہ سے تحقیق کر کے نئے نئے گوشے دریافت کرنے کی خصوصی کاوش کی ہے۔حضرت سید اسد الرحمن قدسیؒ کے ساتھ اپنی نیاز مندی اور عقیدت کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں اپنی اس تالیف کا محرک بتایا گیا ہے۔خاص طور پر صہبا لکھنوی کی کتاب’’اقبال اور بھوپال‘‘کا تذکرہ ابتدائی صفحات کی زینت ہے۔یہ وہ کتاب ہے جس میں حضرت قدسیؒ کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ملک صاحب نے بعد ازاں اپنی کتاب میں حضرت قدسیؒ کے حوالہ سے ایک تفصیلی مضمون قلندرہرچہ گوید دیدہ گوید کے عنوان سے تحریر کیا اسی کتاب کے صفحات میں سید علی عباسی جلالپوری صاحب کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون باصرہ نواز ہوا۔جس میں سید صاحب کی کتاب اقبال کا علم کلام کے حوالے سے درج ہے کہ’’حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنی مخالفت کے باوجود کسی طرف سے بھی جلالپوری مرحوم کی کتاب کا اب تک جواب نہ لکھا جا سکاہے‘‘معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ گورنمنٹ کالج چکوال ہی کے ایک سابق پروفیسر جناب ڈاکٹر احسان اکبر صاحب نے ایک کتاب اقبال فکر و فلسفہ کے عنوان سے المسطر راولپنڈی سے مئی 1990میں شائع کروائی۔یہ کتاب 102صفحات پر محیط ہے پشت ورق پر ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب نے تفصیلی رائے کا اظہار کیا ہے فاضل مصنف نے خاص طور پر ذکر کیا کہ یہ فلسفیانہ مباحث سید علی عباسی جلالپوری صاحب کے اٹھائے گئے اعتراضات کے سلسلے میں تشکیل پائے۔اس کے علاوہ بھی اس ضمن میں ڈاکٹر عبدالمغنی،محمد ارشاد اور محمد کاظم وغیرہ کی تحریریں بھی سامنے آئیں۔مگر اس مذکورہ بالا کتاب کا ربط اس لیے بھی اقبالیات اور چکوال کے موضوع سے جڑتا ہے کہ سید علی عباس صاحب کی کتاب کا جواب لکھنے والے پروفیسر احسان اکبر صاحب چکوال میں قیام پذیر رہے بعد ازاں وہ راولپنڈی کالج تشریف لے گئے تھے۔
اقبال اور چکوال نہایت معلومات افزا کتاب ہے جس میں فاضل مصنف بڑے واضح اور صاف انداز میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور ساتھ ہی قارئین کو دعوت فکر بھی دیتے ہیں ۔
آخر میں یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ فیضی صاحب نے اپنے اسلاف کے نایاب اور قیمتی اقبالیات ورثے کو ایک امانت کی شکل میں نئی نسل کے حوالے اس امید کے ساتھ کیا ہے کہ وہ اس تحقیقی جادے کو آگے بڑھاتے ہوئے منزل سے ہمکنار کریں گے۔
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے