...

علم اور عقل ‘دوستی کا امتحان’ شہزادے اور وزیر زادے کی آزمائش

Spread the love

کسی ملک کا ایک بادشاہ تھا اور اس کا ایک وزیر تھا۔ دونوں کا ایک ایک بیٹا تھا۔ شہزادہ بہت بڑا عالم تھا جب کہ وزیر زادے میں بڑی گہری دوستی تھی۔ ایک دن بادشاہ نے وزیر سے مشورہ کیا کہ کہیں یہ دونوں مل کا سلطنت کے لئے خطرہ نہ بن جائیں ان میں اختلاف پیدا کر دینا چاہئے۔ وزیر نے کہا کہ یہ معمولی کام ہے اور ایک مکار حرافہ کی خدمات اس مقصد کے لئے حاصل کی گئیں۔
شہزادے اور وزیر زادے کا یہ معمول تھا کہ دونوں روزانہ اکٹھے شکار کو جاتے تھے۔ ایک دن جب شکار سے واپس آ رہے تھے تو ایک برقعہ پوش خوب صورت عورت کو راستہ سے ہٹ کر کھڑے دیکھا جس نے وزیر زادے کو اشارے سے اپنے پاس بلایا۔ جب وزیر زادہ اس کے قریب آیا تو اس نے چپ سادھ لی۔ وزیر زادے نے بہتری کوشش کی کہ عورت منہ کھولے اور بلانے کا سبب بتلائے لیکن وہ خاموش ہی رہی ۔ وزیر زادہ جب واپس آیا تو شہزادے نے اس سے پوچھا کہ عورت نے تمہیں کیوں بلایا تھا۔ وزیر زادے نے کہا کہ اس نے تو میرے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کی۔ بلکہ خاموش ہی رہی ہے۔ شہزادے نے سمجھا کہ وزیر زادہ بات چھپا رہا ہے۔ اس لئے اس کے دل میں بدگمانی پیدا ہو گئی مگر خاموش رہا۔ دوسرے دن جب وہ دونوں شکار سے لوٹے تو وہ مکار حرافہ پھر کھڑی دکھائی دی۔ ایک بار پھر اس نے اسی طرح اشارہ کر کے وزیر زادہ کو بلایا۔ لیکن جب وہ اس کے قریب پہنچا تو وہ پھر خاموش رہی اور پھر تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ آج وزیر زادہ نے بڑی کوشش کی کہ وہ عورت اپنے بارے میں کچھ بتائے تاکہ وہ اپنے دوست کو اس کی حقیقت سے مطلع کر سکے۔ لیکن وہ عورت نہ بولی دو دوستوں کے درمیان جو بدگمانی پیدا ہو گئی۔ اب وہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔

واپس محل پہنچ کر شہزادہ الٹی کھٹوانی لے کر پڑ گیا اور آہ و وزاری شروع کر دی۔ فوری طور پر بادشاہ کو اطلاع دی گئی۔ بادشاہ نے شہزادے کی یہ حالت دیکھی تو اس سے پوچھا کہ اسے کیا تکلیف ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟ شہزادے نے کہا کہ اس کا دکھ تب دور ہو گا کہ اس کے دوست وزیر زادے کی آنکھیں نکال کر اسے دکھائی جائیں۔ بادشاہ نے فوراً وزیر کو بلایا اور شہزادے کی خواہش سے اسے آگاہ کیا۔ وزیر نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ وزیر زادے کو اعتماد میں لے کر بکرے کی آنکھیں نکال کر شہزادے کو دکھا دی گئیں اور وزیر زادے کی آنکھوں پر نمائشی پٹی باندھ دی گئی۔

دوسرے دن شہزادہ کو اکیلا شکار پر جانا پڑا۔ شہزادے کو ایک ہرن نظر آیا جس کے پیچھے اس نے اپنا گھوڑا سرپٹ دوڑا دیا لیکن ہرن چوکیاں بھرتا شہزادے کی زد سے دور نکل کر گھنے جنگل میں غائب ہو گیا۔ شہزادہ بڑا مایوس ہوا اور اب تھک کر چور بھی ہوگیا تھا۔ اس نے چاہا کہ کسی جگہ گھوڑے سے اتر کر آرام کرے۔ وہ مناسب جگہ کی تلاش میں ادھر ادھر پھرنے لگا تو اسے ایک ہرا بھرا باغ دکھائی دیا لیکن باغ دیکھ کر اسے احساس ہوا کہ کسی دوسرے بادشاہ کی حدود سلطنت میں داخل ہو گیا ہے بہر حال اس نے کوئی پرواہ نہ کی۔ گھوڑا باغ میں کھلا چھوڑ دیا اور خود ایک درخت کے نیچے سو گیا۔ یہ باغ شہزادی کی سیر گاہ تھا ۔ وہ اپنی سہیلیوں کے ہمراہ جب سیر کے لئے آئی تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک بڑا خوبصورت نوجوان درخت کے نیچے سویا پڑا ہے اور اس کا گھوڑا باغ میں کھلا چر رہا ہے۔ شہزادی کو اس پر بڑا پیار آیا مگر اس نے سوچا کہ نوجوان میرے باغ میں اتنا غافل سویا پڑا ہے نہ جانے کس عقل کا مالک ہے۔ پہلے اس کا امتحان ہونا چاہئے۔ اگر اس میں کامیاب ہو جائے تو پھر اس سے دوستی کی جائے۔

شہزادی نے سہیلیوں کی مدد سے جہاں شہزادہ سویا ہوا تھا اس کے ارد گرد ایک نالی کھودی گئی اور اس میں پانی بھر دیا۔ اس کے علاوہ اس نالی کے اندر چند پھول ایک شیشہ اور ایک تانبے کا ٹکڑا بھی پھینک دیا۔

شہزادہ جب جاگا تو اس نے پھول شیشہ تانبے کا ٹکڑا اور نالی کو بڑی حیرانی سے دیکھا وہاں چھوٹے چھوٹے نازک پاﺅں کے نشان بھی نظر آئے۔ بڑی عقل دوڑائی لیکن اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ رات گئے محل واپس آیا اور ایک بار پھر الٹی کھٹوانی لے کر لیٹ گیا۔ پھر رونا اور کراہنا شروع کر دیا۔ بادشاہ نے حقیقت حال معلوم کی تو پتہ چلا کہ شہزادہ وزیر زادے سے ملنے کے لئے سخت بے تاب ہے۔ وزیر کو بلوایا گیا۔ وزیر نے شاہی حکیم کو اعتماد میں لے کر بادشاہ سے مشورہ کیا اور پھر شہزادے کو بتلایا گیا کہ تمہارا دوست ابھی اس قابل نہیں کہ تمہارے پاس آسکے۔ شہزادے نے کہا کہ اس کی آنکھیں واپس کی جائیں۔ اور کہ وہ کتنے دنوں میں تندرست ہو سکے گا۔ شہزادے کو بتلایا گیا کہ تقریباً چالیس دنوں بعد ممکن ہوگا۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے میرے دوست کا علاج کیا جائے۔

اب شہزادہ لمحہ لمحہ گن کر گزارنے لگا اور شدت سے انتظار کرنے لگا کب اس کا دوست آئے گا اور اس اسرار پر سے پردہ اٹھائے گا۔ جو اس نے شہزادی کے باغ میں دیکھا تھا۔ چالیس دن کے بعد وزیر زادہ شہزادے کے پاس آیا تو شہزادے نے اس سے اپنے کئے کی معافی مانگی اور شرمندگی کا اظہار کیا۔

اب فوراً پروگرام بنایا گیا کہ اس باغ میں جایا جائے وہ باغ میں پہنچے تو دیکھا کہ نالی خشک ہو چکی ہے پھول کملا گئے ہیں شیشہ دھندلا چکا ہے اور تانبے کا ٹکڑا گرد آلود ہو چکا ہے۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ گویا یہ چیز کسی عقل کا ماتم کر رہی ہے۔

وزیرزادے نے ان کو دیکھ کر شہزادے کو بتایا کہ یہاں آنے والی ایک لڑکی تھی جو اس ریاست تانبا نگر کی رہنے ولی ہے۔ پھول سے مراد اس کا نام پھولاں ونتی ہے اور جس محل میں وہ رہ رہی ہے وہ شیشے کا بنا ہوا ہے۔ اور پانی کی نالی یہ بتاتی ہے کہ اس کے ارد گرد پانی سے بھری خندق ہے شہزادہ فوراً آگے بڑھنے کا خواہش مند تھا جب کہ اس کے دوست نے اسے فی الحال واپس جانے اور پوری تیاری کر کے دوبارہ آنے پر راضی کر لیا۔

چند دنوں کے بعد وہ بھرپور تیاری کر کے تاجروں کے ایک قافلہ کی صورت میں تانبا نگر کے باہر ایک باغ میں قیام پذیر ہو گئے۔ شہزادے کو تمام صورتحال سمجھائی گئی اور محل کی طرف روانہ کر دیا گیا۔

جب شہزادہ تیر کر خندق کے پار پہنچا تو محل کے دروازے پر اس نے ایک اور اسرار کا مشاہدہ کیا کہ شہزادی چارپائی پر لیٹی ہے لیکن وہ چارپائی پانی پر تیر رہی ہے۔ گویا ڈوبتی نہیں لیکن شہزادہ یہ دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ گیا اور وہیں رک گیا حتیٰ کہ سپیدہ نمودار ہونے لگا۔ شہزادے نے واپس آ کر رات والی کیفیت اپنے دوست کو بتائی ۔ وزیر زادے نے کہا کمال ہے آپ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکے کہ وہ چارپائی دراصل شیشے کے فرش پر پڑی تھی اس لئے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ پانی میں تیر رہی ہے۔ شہزادہ بڑا حیران ہوا۔ وزیر زادہ نے اسے مزید بتایا کہ جب آپ محل میں گئے تھے تو میں نے ادھر ادھر کے علاقے کا مشاہدہ کیا۔ محل کی پچھلی سمت ایک کھڑکی ہے اس میں رسے کی ایک سیڑھی پڑی ہوئی ہے آپ آج رات اس سیڑھی کے راستے محل میں داخل ہو کر بے دھڑک شہزادی کے کمرے میں داخل ہو جائیں۔

دوسرے روز شہزادہ طے شدہ پروگرام کے مطابق محل کی پچھلی سمت گیا وہاں ایک رسے کی سیڑھی موجود تھی۔ شہزادہ اس سیڑھی کی مدد سے شہزادی کے کمرے میں پہنچ گیا۔ شہزادی بھی اس روز سے مسلسل شہزادے کا انتظار کر رہی تھی۔ جس روز اس نے باغ میں اسے دیکھا تھا۔ رات پڑتے ہی وہ رسے کی ایک سیڑھی محل کے پچھلے دروازے سے نیچے لٹکا دیتی اور سحر ہونے سے قبل ہی اوپر کھینچ لیتی۔ جونہی شہزادہ کمرے میں پہنچا شہزادی نے بڑھ کر استقبال کیا۔ اور پہلا سوال پوچھا کہ بتلاﺅ اپنی عقل سے یہاں پہنچے ہو یا کسی کی رہنمائی میں یہاں پہنچے ہو۔ شہزادے نے کہا میں اپنی عقل سے یہاں پہنچا ہوں۔

شہزادی نے اسے کہا اگر تم اپنی عقل سے آئے ہو تو کل ساری رات دہلیز پر بیٹھ کر کیوں گزار دی۔ لیکن شہزادہ مصر رہا کہ میں اپنی عقل سے یہاں تک پہنچا ہوں۔

شہزادی نے اس پر اعتبار کر لیا اور رنگ رلیاں شروع ہو گئیں۔ جوانی کی نیند تھی اور گرم موسم یہاں آب و ہوا کی خنکی نے اس کے اعصاب پر نیند مسلط کر دی اور جوانی کی نیند

دور سے کوتوال شہر نے دیکھا کہ شہزادی کے محل میں اس وقت تک روشنی جل رہی ہے اس نے اپنے ماتحت پہریداروں کو ساتھ لیا اور حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے محل کی طرف چل پڑا۔ جب محل کے قریب آیا تو اس نے رسے کی رسی لٹکی دیکھی اور پھر جب اس کے ذریعے محل کے اندر پہنچا تو بڑا حیران ہوا کہ شہزادی کے کمرے میں ایک اور نوجوان بھی ہے اور دونوں ایک مسہری پر محو خواب ہیں اس نے فوراً واپس جا کر بادشاہ کو صورتحال سے باخبر کیا۔ بادشاہ نے آدھی رات کو یہ منحوس خبر سن کر کوتوال کو حکم دیا کہ دونوں کو مندر میں بند کر دیا جائے اور صبح دونوں کو ہمارے حضور پیش کیا جائے۔

کوتوال نے واپس جا کر دونوں کو گرفتار کر لیا اور شہر کے مندر میں بند کر دیا اب صورتحال بہت خراب ہو چکی تھی اور اگر اس پر وقت سے پہلے قابو نہ پایا جاتا تو صبح دونوں کے سر قلم کر دیئے جاتے۔

شہزادی نے ایک بار پھر شہزادہ سے پوچھا کہ اب بتاﺅ واقعی تم اپنی عقل سے آئے ہو یا کسی اور کی تو شہزادے نے اثبات میں جواب دیا لیکن شہزادی نے جب اسے صورتحال سمجھائی تو شہزادہ چکر کھا گیا اور اس نے تسلیم کر لیا کہ واقعی وہ کسی دوسرے کی عقل کی رہنمائی میں یہاں تک پہنچا تھا اور اس وقت بھی وہ باغ میں موجود تھا۔

کوتوال جا چکا تھا ایک پہریدار ڈیوٹی پر تھا۔ شہزادی نے ایک دیوار کے سوراخ سے پہریدار کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اور کہا کہ میرے گلے میں یہ ہار ہے جو سونے کا ہے اگر تم میرے کام کی حامی بھرو تو آدھا ہار پیشگی اور جب کام ہو جائے تو باقی نصف بھی تمہارا پہریدار نے کام کی نوعیت معلوم کر کے آمادگی کا اظہار کر دیا۔

پہریدار نے صرف ایک پیغام اس باغ تک لے جانا تھا اور اتنی اونچی آواز میں کہہ سنانا تھا کہ باغ کے اندر اسے سن لیتے۔ یہ پیغام یوں تھا ….ریوڑسے جدا ہو کر کسی کا جانور شہر کی طرف گیا تھا وہ گرفتار ہو گیا ہے اور اب شہر کے بڑے مندر کے پھاٹک میں بند ہے۔ پہریدار نے جا کر باغ کے قریب ہانک لگائی اور واپس آ کر اپنا بقیہ انعام وصول کر لیا۔ ادھر وزیر زادے کو بھی اس پیغام سے صورتحال سمجھ میں آ گئی تھی۔

گھنٹہ بھر کا وقت گزرا ہوگا کہ ایک عورت سر پر تھال لے کر آگئی۔ تھال میں مٹھائی تھی۔ اس نے بڑاشور مچایا کہ مندر کا دروازہ بند کیوں ہے۔ میرا خاوند بھی ابھی سفر سے لوٹا ہے میں نے منت مانی تھی کہ وہ جونہی گھر آئے گا سوا سیر مٹھائی تقسیم کروں گی۔ اور مندر میں متھا ٹیکوں گی۔ بادشاہ کا حکم ہے کہ عبادت خانے دن رات کھلے رہیں گے۔ تم میرے اوپر مندر کا دروازہ بند نہیں کر سکتے ۔ پہریدار نے کوتوال کو صورتحال سے باخبر کیا۔ کافی کوشش کی گئی کہ عورت واپس چلی جائے لیکن وہ تو بضد تھی کہ میں منت پوری کئے بغیر نہیں جاﺅں گی اور اگر گئی تو صبح بادشاہ سے شکایت کروں گی۔ واقعی عبادت خانوں کے متعلق بادشاہ کی سخت ہدایت تھیں۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ خاتون کو اندر جانے دیا جائے اور جتنی دیر وہ عبادت میں مشغول رہے باہر سے دروازہ بند رہے اور جب وہ اپنا کام مکمل کر چکے باہر نکال دیا جائے۔

عورت اندر داخل ہوئی عبادت ختم کرنے کے بعد باہر نکلی مندر کو پھر تالا لگا دیا گیا۔ عورت مٹھائی تقسیم کرتی دعائیں بڑبڑاتی اور سوا پانچ روپے پہریداروں میں تقسیم کرنے کے بعد واپس چلی گئی۔

صبح بادشاہ نے کچہری لگائی اور ملزموں کو حاضر کرنے کا حکم دیا جونہی مندر کا دروازہ کھولا گیا اندر سے دو سادھو برآمد ہوئے جن کے جسم پر صرف ایک لنگوٹی تھی۔ راکھ سے لتھڑے پڑے تھے ان کے جسم پر تشدد کے بے شمار نشانات تھے وہ روتے اور کانپتے گڑ گڑا کر بادشاہ کے قدموں میں ڈھیر ہوگئے۔ حاضرین سب حیران و پریشان رہ گئے بادشاہ نے ان سادھوﺅں سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو۔ سادھوﺅں نے جواب دیا بادشاہ سلامت ہم غریب سادھو ہیں۔ کل ہی آپ کے شہر آئے تھے ان لوگوں نے ہمیں پکڑ کر ادھر بند کر دیا اور ہمارے اوپر بے پناہ تشدد کیا۔ بادشاہ نے کہا کوئی ثبوت تو سادھو کہنے لگے ہمارے پاس سوا پانچ روپے تھے وہ بھی آپ کے سپاہیوں نے نکال لئے اور پھر آپس میں بانٹ لئے جب چاروں پہریداروں اور کوتوال کی تلاشی لی گئی تو ایک ایک روپیہ ان سے اور سوا روپیہ کوتوال سے برآمد ہوا۔ یہ دیکھ کر بادشاہ کو سخت غصہ آیا کہ ہمارے کوتوال نے خواہ مخواہ غریبوں پر تشدد کیا اور ان سے رقم بھی چھین لی۔ اور پھر میری بیٹی پر اتنی شرمناک تہمت لگائی چنانچہ کوتوال کو سزائے موت دے دی گئی۔

دراصل بات یہ ہوئی تھی کہ وہ عورت جو مٹھائی لے کر آئی تھی وہ وزیر زادہ تھا اس نے اندر اخل ہوتے ہی اپنے کپڑے شہزادی کو پہنا دیئے خود لنگوٹیاں کس لیں اور پھر مندر کے اندر چارپائیاں اور بستر اور اپنے ساتھ غیر ضروری اشیاءکو آگ لگا کر شہزادہ اور اپنا حال سادھوﺅں جیسا بنا لیا۔ شہزادی کو کہا کہ تم گھونگھٹ نکال لینا تمہیں کوئی نہیں پہچان سکے گا۔ یہ سوا پانچ روپے اور مٹھائی تقسیم کر کے اپنی راہ لینا اور محل میں جا کر سو جاﺅ۔ یہاں ہم جانیں اور ہماری قسمت ۔ خوش قسمتی سے ان کا ناٹک کامیاب ہو گیا اور بادشاہ نے ان سے معذرت کر لی۔ اور انہیں چھوڑ دیا۔ وہ بھاگے بھاگے اپنے کیمپ میں پہنچ گئے جو باغ میں تھا۔

اس واقعہ کو چند دن گزرے ہونگے کہ ایک بوڑھا تاجر تانبا نگر کے بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ باپردہ ایک جوان لڑکی بھی اس کے ساتھ تھی۔ رسمی علیک سلیک اور تحفوں کی پیشکش کے بعد تاجر نے بادشاہ کو اپنی آمد کا مدعا بیان کیا کہ میں ایک لمبے سفر پر ہوں اور فلاں جگہ سے آیا ہوں اور فلاں جگہ جا رہا ہوں تقریباً سال بھر مجھے واپس آنے میں لگے گا۔ میری بیٹی گھر سے تو بڑے شوق کے ساتھ میرے ساتھ چلی تھی مگر اب اس کا دل مزید سفر کرنے کو نہیں چاہتا۔ اب اس مرحلہ پر یہاں سے واپس بھی نہیں جا سکتا۔ تو کیا آپ میری بیٹی کی رہائش کا بندوبست اپنے زیر انتظام کر سکتے ہیں۔ بادشاہ جو قیمتی تحائف تاجر سے پا کر بہت خوش تھا اس نے کہاں کیوں نہیں۔ اگر یہ تمہاری بیٹی ہے تو میری بھی بیٹی ہے۔ اسے میں محل میں اپنی بیٹی کے ساتھ ٹھہراﺅں گا اور جب تم واپس آﺅ گے تو اپنی یہ امانت مجھ سے حاصل کرسکتے ہو۔

یہ محل میں جانے والی لڑکی دراصل شہزادہ تھا جسے وزیر زادہ بوڑھے تاجر کا روپ دھار کر اپنے ساتھ بیٹی بنا کر لایا تھا۔ شہزادہ اس بہانے پر محل میں داخل ہو گیا اور سال بھر شہزادی کی صحبت میں گزار کر عیش کرتا رہا۔

طے شدہ پروگرام کے مطابق جس دن زیر زادے کو واپس آنا تھا شہزادہ دو دن قبل محل سے فرار ہو کر باغ والے کیمپ میں آگیا۔ جہاں وزیر زادہ واپس آ کر خیمہ زن ہو چکا تھا۔ بوڑھا تاجر بے شمار قیمتی تحائف کے ساتھ دربار میں واپس آیا بادشاہ تاجر کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اور ساتھ ہی نادم بھی۔ جب تاجر نے اپنی بیٹی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو بادشاہ نے بہت شرمندگی اور افسوس کا اظہار کیا کہ صرف دو دن قبل تمہاری بیٹی اچانک محل سے کہیں گم ہو گئی ہے۔ بہت کوشش کی گئی ہے لیکن کہیں نہیں ملی۔ تاجر بڑا افسردہ ہوا اور یوں بڑبڑانے لگا ”میری بیوی مر گئی تھی، میرا ایک بیٹا تھا اور ایک بیٹی جنہیں میں نے بڑے لاڈ پیار سے پالا تھا۔ اب میں اپنی بیٹی کو کہاں تلاش کروں گا۔ بادشاہ بھی اس کی باتوں سے انتہائی آزردہ ہوا اور پھر بوڑھے تاجر کی امارت کا اندازہ لگا کر گویا ہوا۔

میرے دوست گو کہ مجھے بہت افسوس ہے کہ تمہاری بیٹی میرے محل سے گم ہو گئی ہے اگر تم پسند کرو تو میں اپنی بیٹی کی شادی تمہارے بیٹے سے کرنے کو تیار ہوں۔ تم اسے ہی پنی بیٹی سمجھ لینا۔ شاید تمہارا غم غلط ہو سکے۔ بوڑھے تاجر کے چہرے پر ایک دم خوشی کی لہر دوڑ گئی اور کہنے لگا۔ بادشاہ سلامت اس سے بڑا اعزاز میرے لئے اور کیا ہوسکتا ہے چنانچہ دن مقرر کر کے شہزادے کی شادی شہزادی سے کر دی گئی۔ اب شہزادہ وزیر زادے کو بھول گیا اور محل سرا میں عیش کرنے لگا۔ اس سے بادشاہ اور وزیر بھی مطمئن ہو گئے کہ اب ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں رہا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Seraphinite AcceleratorOptimized by Seraphinite Accelerator
Turns on site high speed to be attractive for people and search engines.