چکوال کی سیاسی تاریخ: اہم واقعات، انتخابات اور تحریکیں
چکوال کی سیاست کا ابتدائی جغرافیائی منظرنامہ
چکوال کی سیاسی تاریخ، اہم واقعات پربات کرنے سے پہلے اس کی ابتدائی جغرافیائی صورتحال کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ چکوال، جو ایک چھوٹا سا شہر تھا، ضلع جہلم کی تحصیل کے طور پر جانا جاتا تھا اور اس کی پہلی ٹاؤن کمیٹی 1922ء میں قائم ہوئی۔ اس سے پہلے یہاں کوئی بلدیاتی ادارہ موجود نہیں تھا۔
چکوال کی حدود
ابتدائی دور میں چکوال کی حدود شمال کی طرف ریلوے روڈ تک پھیلی ہوئی تھیں، جسے آج تلہ گنگ روڈ کہا جاتا ہے۔ اس وقت تلہ گنگ روڈ چونگی نمبر 3 سے شروع ہوتی تھی اور جنوب کی طرف تترال ہوٹل کی طرف بڑھتی تھی۔ سرپاک کے کنارے واقع گراﺅنڈ اور مائی معظمہ کے دربار سے آگے اسلامیہ سکول والی سڑک کو گورنمنٹ خواتین کالج روڈ سے جوڑنے والی سڑک بھی تلہ گنگ روڈ کے نام سے جانی جاتی تھی۔
فاروقی محلہ اور اطراف کی سڑکیں
اس دور میں فاروقی محلہ موجود نہیں تھا بلکہ یہ خالی جگہ تھی جہاں سے ایک کچا راستہ ڈوہمن کی طرف جاتا تھا۔ یہ راستہ چکوال سے جبیر پور، اوڈھروال، موہڑہ گجر، اور پنجائن سے گزرتا ہوا ڈوہمن تک جاتا تھا۔ اس راستے کو پنڈدادن خان روڈ کہا جاتا تھا جبکہ جہلم روڈ کا ذکر نہیں ہوتا تھا۔ شمال کی طرف کچھ آباد نہیں تھا، صرف ایک منڈی موجود تھی۔
غلہ منڈی اور ریلوے سٹیشن
شمال مغرب کی طرف غلہ منڈی اور ریلوے سٹیشن واقع تھے۔ یہ ریلوے سٹیشن 1916ء میں مندرہ بھون ریلوے لائن کا حصہ تھا۔ ریلوے سٹیشن کے قریب ہی بجلی گھر واقع تھا جو اس وقت کی ضروریات کو پورا کرتا تھا۔
کوٹ گنیش اور کوٹ طورا باز خان
جنوب کی طرف کوٹ گنیش کی آبادی موجود تھی جسے آج کوٹ سرفراز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اُس دور میں اسے غالباً کوٹ طورا باز خان کہا جاتا تھا، جیسا کہ اس وقت کی کمیٹی کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔
یہ تمام تفصیلات چکوال کی سیاست کے آغاز کے تناظر کو واضح کرتی ہیں، جس میں شہر کے جغرافیائی اور انتظامی پہلوؤں کا ذکر ملتا ہے۔ ان معلومات کو سمجھنے سے چکوال کی سیاست کی بنیادوں کا بہتر ادراک حاصل ہوتا ہے۔
چکوال میں سیاست کی ابتدا کا منظر نامہ
چکوال کی ابتدائی سیاست کا جائزہ لینے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بلدیاتی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کوئی باقاعدہ سیاسی تحریک نہیں چلتی تھی۔ اس وقت چکوال کا سیاسی منظر نامہ محدود تھا، اور بڑی سیاسی جماعتوں کی موجودگی بھی کم تھی۔
چکوال کے پہلے سیاستدان اور لیجسلیٹو اسمبلی
چکوال کے علاقے کے ابتدائی سیاستدانوں میں ضلع جہلم کے راجہ غضنفر علی خان نمایاں شخصیت تھے۔ وہ مسلم لیگ کے اہم رہنما تھے اور قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھے۔ اس وقت شہر میں الیکشن نہیں ہوتے تھے، اور لیجسلیٹو اسمبلی کے انتخابات کا آغاز 1926ء میں ہوا تھا۔ یہ دور سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کا دور تھا، اور چکوال کی سیاست کی ابتدا کا منظر نامہ واضح ہوتا گیا۔
خاکسار تحریک اور اس کے حامی
1937ء سے 1946ء کے درمیان پنجاب میں خاکسار تحریک ایک نمایاں سیاسی تحریک تھی، جس کی قیادت علامہ عنایت اللہ خان مشرقی کر رہے تھے۔ چکوال کے لوگ بھی اس تحریک کا حصہ بنے، جن میں راجہ سرفراز خان مرحوم اور چوہدری گل شیر خان قابل ذکر نام تھے۔ خاکسار تحریک میں شامل ہونے والوں میں ایک اور اہم شخصیت مستری فتح محمد تھے، جو جبیر پور کے رہائشی تھے۔ جب تک وہ زندہ رہے، ان کے گھر پر خاکسار تحریک کا جھنڈا لہراتا رہا، حالانکہ یہ تحریک کب کی ختم ہو چکی تھی۔
اسی گاؤں کی ایک خاتون، الٰہی جان، بھی خاکسار تحریک کی پرزور حامی تھیں۔ ان کے دو بیٹے بھی خاکسار تحریک کے حمایتی تھے۔ جب خاکسار تحریک کے کارکنوں پر گولی چلائی گئی اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا تو ان کا ایک بیٹا، اللہ دتہ، نابینا ہو گیا۔ وہ اپنی زندگی کے باقی دن جبیر پور میں گزارے اور یہیں ان کی وفات ہوئی۔ اس قسم کے لوگ جو کہ خالصتاً عوامی سطح پر سرگرم تھے، چکوال میں سیاست کی ابتدا کا منظر نامہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔
چکوال کی دیگر سیاسی جماعتیں
ان دنوں مسلمانوں کی ایک اور جماعت مجلس احرار الاسلام بھی تھی، جو ہندوستان میں پھیل گئی تھی۔ تاہم، چکوال میں اس جماعت کا کوئی قابل ذکر حامی موجود نہیں تھا۔ چکوال میں علماء کرام بھی اس جماعت کا حصہ نہیں بنے تھے۔ اگرچہ اسلامیہ انجمن یہاں قائم تھی، جو اسلامیہ ہائی سکول چکوال چلاتی تھی۔ اس کے ساتھ مدرسہ اشاعت العلوم بھی منسلک تھا۔ ان اداروں کو خواجگان اور مسلمانوں کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔ جن میں سے راجہ سرفراز خان بھی نمایاں تھے۔
سیاسی جلسے اور اہم شخصیات
1930 کے قریب چکوال میں کئی اہم جلسے بھی ہوا کرتے تھے، جن میں مولانا ظفر علی خان اور مولانا سید عطاءاللہ شاہ بخاری کی شرکت اور تقاریر شامل تھیں۔ ان کے خطبات عوامی سطح پر سنے جاتے تھے اور لوگوں کی بڑی تعداد ان کی حمایت کرتی تھی۔ ان جلسوں نے بھی چکوال میں سیاست کی ابتدا کے منظر نامے کو واضح کیا اور لوگوں کو سیاسی شعور دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ تمام تفصیلات چکوال کی سیاست کی ابتدائی صورت حال اور اس کی ترقی کے مختلف مراحل کو بیان کرتی ہیں، جس میں اس وقت کی سیاسی تحریکیں، اہم شخصیات، اور عوام کی شمولیت شامل ہیں۔ چکوال کی سیاست کی ابتدا کا یہ منظر نامہ بتاتا ہے کہ کیسے ایک چھوٹے سے شہر نے اپنی سیاسی شناخت قائم کی اور وقت کے ساتھ ترقی کرتا گیا۔
چکوال کی سیاست کی ابتدائی صورتحال
چکوال کی سیاست کی ابتدا میں کوئی خاص سیاستدان موجود نہیں تھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد، پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے الیکشن ہوئے جو غالباً مارچ 1951ء میں منعقد ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں چکوال کو دو حلقوں میں تقسیم کیا گیا: ایک مغربی حلقہ اور ایک مشرقی حلقہ۔ مغربی حلقہ چکوال شہر اور اس سے آگے مغرب کی طرف حاصل اور وروال تک کے علاقے پر مشتمل تھا۔ مشرقی حلقہ میں چکوال سے شروع ہو کر جبیرپور، چکرال اور آگے جاتے ہوئے پیر پھلاہی تک کا علاقہ شامل تھا۔
ان انتخابات کے حوالے سے لوگوں میں معلومات کی کمی تھی؛ بہت سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ انتخابات ہوں گے یا ان کی کیا اہمیت ہوگی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ 1926ء سے راجہ سرفراز خان ہی الیکشن میں حصہ لیتے تھے اور عموماً کامیاب ہوتے تھے۔ دیگر لوگوں کی دلچسپی بہت کم تھی، اور اس وقت کے انتخابات میں عوامی شمولیت محدود تھی۔
مسلم لیگ کی ابتدا اور چکوال میں سیاست کا آغاز
پاکستان کے قیام کے بعد پہلی بار چوہدری محمد امیر خان اور قاضی غلام احمد نے مل کر یہ سوچا کہ مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی جائے۔ اس پر بات شروع ہوئی تو خاکسار تحریک بھی زیر بحث آ گئی۔ چکوال میں کپڑے کے ایک دکاندار، چاچا مخمل، نے بتایا کہ مسلم لیگ کی تشکیل کے وقت یہاں خاکسار تحریک بھی فعال تھی، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ مسلم لیگ کی طرف نہیں آ سکے۔ گلشیر خان اور راجہ سرفراز خان جیسے افراد بھی خاکسار تحریک کا حصہ تھے۔
مسلم لیگ کو اس وقت چکوال میں کوئی خاص مقام حاصل نہیں تھا۔ نواب ممدوٹ 1946ء میں چکوال کے دورے پر آئے اور زمینداروں کو یقین دلایا کہ انگریز یہاں سے چلے جائیں گے، پاکستان بن جائے گا، اور یہ علاقہ پاکستان کا حصہ ہوگا۔ ان کی باتوں نے رﺅسا اور زمینداروں کو مسلم لیگ کی طرف مائل کیا، اور ان لوگوں نے یونینسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔
مسلم لیگ کی کامیابی کی وجوہات
1946ء میں ایک تحریک شروع ہوئی: ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘۔ اس تحریک نے مسلم لیگ کی کامیابی کو یقینی بنایا۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے مسلم لیگ کی حمایت کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کے چوہدری نور خان المعروف نور خان گاندھی، جنہیں ان کی نیک سیرتی اور مضبوط ارادے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا، نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ انہوں نے یونینسٹ پارٹی کی جانب سے الیکشن لڑا۔
1951ء کے انتخابات اور ٹکٹ کی تقسیم
1951ء کے انتخابات میں یہ خواہش کی گئی کہ مسلم لیگ کا ٹکٹ کسی بڑے زمیندار یا رئیس کو نہ دیا جائے بلکہ کارکنوں جیسے قاضی غلام احمد، خالد سلیم خواجہ، اور چوہدری امیر خان کو دیا جائے۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ کے کارکنوں نے ضلع جہلم کے صدر مرزا مظہر حسین سے میٹنگ کی اور ٹکٹ کی تقسیم پر گفتگو کی۔ مرزا صاحب نے کہا کہ ٹکٹ ممتاز دولتانہ کے ہاتھ میں ہے جو عنقریب جہلم آ رہے ہیں۔ جب ممتاز دولتانہ آئے تو کارکنوں کے ساتھ میٹنگ ہوئی اور بات چیت کا آغاز ہوا۔
چوہدری امیر خان نے اس دوران اپنی تحریک چلائی اور کارکنوں کے حقوق کی بات کی۔ ان کی شکایت تھی کہ مسلم لیگ کا ٹکٹ رﺅسا کو دیا جا رہا ہے۔ جبکہ وہ چاہتے تھے کہ عام کارکنان کو ٹکٹ ملے۔ مگر بات وہیں ختم ہوئی کہ مغربی حلقہ میں راجہ سرفراز خان کو مسلم لیگ کا امیدوار نامزد کیا گیا۔ جب کہ شرقی حلقہ میں نواب مہر شاہ صاحب کو ٹکٹ ملا۔
انتخابی معرکہ اور مختلف امیدواروں کا کردار
چوہدری امیر خان نے اپنی انتخابی تحریک جاری رکھی اور مغربی حلقے میں مضبوط امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئے۔ مشرقی حلقے میں امیدواروں کی بڑی تعداد میدان میں اتری۔ جن میں سید دلاور شاہ ایڈووکیٹ، صوفی غلام مصطفی کریالہ، چوہدری محمد خان ربال، اور چوہدری غلام حیدر کریالہ شامل تھے۔ ان سب نے نواب مہر شاہ کا مقابلہ کیا، تاہم انتخابی نتائج کافی غیر یقینی رہے۔
صفدر آف ڈھڈیال، جو کہ کھل بنولہ کی مل کے مالک تھے، کو کہا گیا کہ وہ الیکشن میں حصہ لیں، لیکن انہوں نے معذرت کرلی۔ ان کے بجائے بابو لعل خان آف سانگ کلاں، جو کہ افریقہ سے چھٹی پر آئے تھے۔ کو میدان میں اتارا گیا۔ یہاں سے ایک نیا لفظ دستکار وجود میں آیا، جو غیر کاشتکار کو کہا جاتا تھا۔ چوہدری امیر خان مغربی حلقے سے کامیاب ہوئے جبکہ لعل خان ہار گئے۔
چکوال میں سیاسی تبدیلیاں اور سہروردی کا کردار
1950ء کے انتخابات سے پہلے سہروردی صاحب چکوال آئے اور لوگوں سے خطاب کیا۔ قاضی غلام احمد نے شکایت کی کہ مسلم لیگ ٹکٹ صحیح طریقے سے تقسیم نہیں کر رہی۔ اس دوران سہروردی صاحب نے مسلم لیگ مخالف جماعت کی تشکیل کا مشورہ دیا ۔ عوام کو یقین دلایا کہ وہ مسلم لیگ کے خلاف ان کا موقف پیش کریں گے۔ اس موقع پر عوامی لیگ کے قیام اور قائد اعظم کی حمایت کا بھی ذکر کیا گیا۔
چکوال کی سیاست کا آغاز اور اس کی اہمیت
یوں چکوال کی سیاست کا آغاز ہوا، جہاں سیاسی پارٹیاں اور تحریکیں ایک دوسرے کے مد مقابل آئیں۔ ہر جماعت نے اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی، اور اس دوران لوگوں کا سیاسی شعور بیدار ہوا۔ سہروردی صاحب کی آمد اور ان کی تقریر نے عوام میں جوش و جذبہ پیدا کیا۔ جس سے سیاست کا ایک نیا رنگ دیکھنے کو ملا۔
چکوال کی ابتدائی سیاست میں مختلف نظریات کا ٹکراؤ، عوامی شعور کا بیدار ہونا، اور سیاسی رہنماؤں کی جدوجہد نے اس خطے کی سیاسی تاریخ کو منفرد بنا دیا۔ اس داستان میں جہاں رﺅسا کی حکمرانی اور نوابوں کا اثر و رسوخ نظر آتا ہے۔ وہیں مڈل کلاس اور عام کارکنوں کی بھی ایک بڑی تحریک دیکھنے کو ملی۔
نتیجہ: پرانی سیاست کی شکست اور نئی امیدیں
چکوال کی سیاست کا یہ سفر آج بھی جاری ہے، اور اس کی بنیاد میں ان تاریخی واقعات کا بڑا کردار ہے۔ جیسے کہ شاعر نے کہا:
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمین میر سلطان سے بیزار ہے
یہ چکوال کی سیاسی تاریخ: اہم واقعات، انتخابات اور تحریکوں کا ابتدائی خاکہ ہے، جس میں مختلف طبقات کے اثرات، تحریکیں، اور سیاسی تبدیلیاں واضح ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ چکوال کی سیاست میں بھی تبدیلیاں آئیں، اور عوامی شعور نے نئے راستوں کا تعین کیا۔
رانا محمد اکبر (مرحوم) کی مکمل ویڈیو دیکھنے کیلئے : کلک کریں
چکوال پلس یوٹیوب چینل دیکھنے کے لئے کلک کریں۔
چکوال کی سیاست کے حوالے سے مزید مضامین پڑھنے کیلئے کلک کریں
نوٹ
رانا اکبر چکوال کے ایک معتبر اور باوقار نام تھے۔ وہ ایک پائے کے وکیل تھے اور اس سے قبل پاکستان ائیرفورس میں بھی خدمات انجام دے چکے تھے۔ ان کی چکوال کی سیاست پر گہری نظر تھی، اور وہ چکوال کی سیاسی تاریخ: اہم واقعات، انتخابات اور تحریکوں کو بخوبی سمجھتے تھے۔ رانا اکبر ایک سیاستدان نہیں تھے۔ لیکن ان کی بصیرت اور تجزیاتی صلاحیت نے انہیں سیاسی معاملات کا گہرا جاننے والا بنا دیا تھا۔
وہ کئی معروف اخبارات میں اپنے کالموں کے ذریعے سیاسی اور سماجی موضوعات پر روشنی ڈالتے رہے ہیں۔ رانا اکبر نے اپنی وفات سے قبل چکوال پلس یوٹیوب چینل کو تفصیلی انٹرویوز دیے۔ جن میں انہوں نے چکوال کی سیاست کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی۔ یہ انٹرویوز چکوال کی سیاسی تاریخ کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔
یہ مضمون انہی انٹرویوز پر مبنی ہے، جسے چکوال پلس ویب سائٹ کے مصنف فاروق منہاس نے تیار کیا ہے۔ اس میں رانا اکبر کے بیانات اور مشاہدات کو پیش کیا گیا ہے۔ تاکہ قارئین چکوال کی سیاست کے اہم لمحات سے واقف ہو سکیں۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا، اور آئندہ آنے والے مضامین میں مزید تفصیلات پیش کی جائیں گی۔ امید ہے کہ یہ مواد قارئین کو پسند آئے گا ۔ چکوال کی سیاست کے بارے میں ایک منفرد زاویہ فراہم کرے گا۔