پروفیسر سعید اکرم کی آپ بیتی ’’کچھ یاد رہی ،کچھ بھول گئے‘‘پر ایک نظر

Spread the love

 

بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے مل کر بے پناہ خوشی اور مسرت کا احساس دامن گیر ہوتا ہے۔ضلع چکوال کے معروف قصبہ سہگل آباد میں مقیم پروفیسر سعید اکرم کے درِ دولت پر محترم اشرف آصف صاحب کی ہمراہی میں حاضری اور ان کی خوبصورت کتاب ’’کچھ یاد رہی،کچھ بھول گئے‘‘کا تحفہ پا کر ایسی ہی خوشی کا احساس ہوا۔

پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود
یونیورسٹی آف چکوال

کتاب کے ابتدائی صفحات کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ہی سید سلیمان ندوی کی ان سطور کی صداقت کا یقین ہونے لگا جو انہوں نے مولانا عبدالماجد دریا آبادی کی آپ بیتی کے دیباچے میں تحریر کی ہیں۔سید صاحب رقم طراز ہیں کہ اگر یہ سوال کیا جائے کہ ادب و انشا اور تاریخ و تذکرہ کے اصنا ف میں سب سے زیادہ دلچسپ،دلآویز،خوش گوار اور شوق انگیز صنف کون سی ہے۔تو شاید اکثر اہل ذوق کا جواب یہی ہو گا کہ ایک اچھے صاحب قلم اور ادیب کے قلم سے نکلی ہوئی ’’آپ بیتی‘‘
پیش نظر آپ بیتی کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے اس کی عملی مثال ہے کیوں کہ اس کے مصنف پروفیسر سعید اکرم بھی ایک نامور شاعر اور ادیب ہیں۔اس آپ بیتی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی بنیاد محبت اور عجز و انکسار پر استوار کی گئی ہے کیوں کہ خود مصنف محبتس کا ایسا ٹھنڈا میٹھا اور فرحت بخش چشمہ ہیں جس کی فیض رسانی ہر کس وناکس کے لیے عام ہے وہ ایک سعید شاگرد ،شفیق اُستاد،محبت کرنے والے باپ اور مخلص دوست ہیں۔
فاضل مصنف اس آپ بیتی میں اپنے گائوں کی بھولی بسری یادوں،حالات کی بوقلمونی اور نیرنگئی زمانہ کو حوالہ قرطاس کرتے ہوئے لطیف احساسات کی ترجمانی،نالہ بھنائو کے کنارے باد نسیم کے خوشگوار جھونکوں،ابھرتے سورج کی نرم کرنوں کا تذکرہ،زندگی کے تلخ و شیریں حقائق کی گرہ کشائی ایسے شاعرانہ اور دلنشیں انداز میں پیش کرتے ہیں کہ قاری بھی مصنف کے ساتھ اس خوبصورت اور نورانی ماحول کا حصہ بن جاتا ہے۔جس میں کتنی ہی قندیلیں روشن ہیں جن کے نور سے کئی دھندلے اور گم شدہ راستوں پر رہروان شوق کے زندگی بخش قدموں کی آہٹوں کا سراغ ملتا ہے اور پھر یہی راستے اور پگڈنڈیاں قاری کو اس کی اپنی ذات کی گمنام اور کھوئی ہوئی منزلوں تک لے جاتی ہیں۔
ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کس خوبصورتی سے اپنے گائوں کا تعارف پیش کرتے ہیں۔
دن رات کے ہیر پھیر کے اندر پنڈ دادن خان کے گائوں کھوتھیاں کا بچونگڑا ہمارا گائوں،کھوتھیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اپنے خال و خد ظاہر کرنے لگا۔اس کے اندر زندگی انگڑائیاں لینے لگی۔چاک پر رکھی گوندھی مٹی،چاک سمیت گھومنے لگی۔کچے گھڑوں،گھڑولیوں اور کچی ہانڈیوں سے بھرے آوے دہکنے لگے۔چرخوں کے تکلوں سے سوت کی دھار اٹھنے لگی۔کپڑے سلنے لگے۔کوہلوئوں سے تیل نکلنے لگا۔چکیوں کے گھومتے پڑوں سے آٹا برف کے گالوں کی طرح گرنے لگا۔دہکتے کوئلوں کے اندر لوہا پگھل پگھل کر ہل پھال بنانے لگا۔زمینیں اناج اگلنے لگیں۔ایسے میں پھر گائوں کے اندر سے نکل کر بل کھاتی پگڈنڈیوں پر چل کر زندگی باہر کی خبر لے جانے اور لے آنے لگی۔

 

پروفیسر سعید اکرم ، مصنف کتاب

اسی گائوں اور اسی دھرتی کے قابل فخر سپوت پروفیسر ڈاکٹر سید کامران کاظمی نے اس کتاب کے بیک فلیپ پر بالکل درست تحریر کیا کہ یہ آپ بیتی محض ایک شخص کی آپ بیتی نہیں بلکہ ایک پورے خطے کی تاریخی دستاویز ہے۔بلاشبہ ساڑھے پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب میں اپنے سوانحی احوال کے ساتھ ساتھ تاریخی،معاشرتی،عمرانی،سیاسی اور ادبی حالات کو اپنے بے مثال محافظے اور گہرے مشاہدے کو بروئے کار لاتے ہوئے بڑے منضبط انداز میں حوالہ قرطاس کر کے ہمارے عہد بے تعبیر کو تعبیر آشنا کیا۔اپنے بچپن کے دنوں کو الوداع کہتے ہوئے لکھا کہ اب بچپن پیچھے رہنے لگا۔پھرجونا سنگھ کا مطب اور ایشر کھتری کی ہٹی بند ہو گئی،پیارا وطن پاکستان معرض وجود میں آگیا۔قائداعظم رخصت ہو گئے۔زمانہ آگے بڑھتا گیا اور بستی کے رنگ بھی تبدیل ہونے لگے۔مشہور زمانہ سہگل سکول قائم و دائم ہو گیا۔اور طالب علم فقیر محمد نے حصول علم کے لیے اپنے سفر کا آغاز کر دیا۔ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے یہ طالب علم اپنی سائیکل کی سواری کرتے ہوئے عظیم درسگاہ گورنمنٹ کالج چکوال کی علمی فضا کا حصہ بن گیا۔یہ زمانہ انسان کی زندگی کا عہد زریں ہوتا ہے یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب انسان مادر علمی کی آغوش میں دنیا کے تلخ و ترش،سرد و گرم سے بیگانہ ہو کر زبان حال سے پکار اٹھتا ہے۔

خندہ زن ہیں بے تکلف فکر سے آزاد ہیں

لیکن اس سنجیدہ طالب علم نے یہاں بھی قدم پھوک پھونک کر رکھنے کو ترجیح دی۔جس کی بدولت انہوں نے نہ صرف تعلیمی مراحل کامیابی سے طے کیے بلکہ اللہ کے فضل و کرم ،بزرگوں کی دعائوں اور اپنی محنت کے طفیل اس عظیم درسگاہ میں پروفیسر بن کر آئے اور ریٹائرمنٹ تک یہاں تدریسی خدمات بھی سرانجام دیں۔اس حصے میں انہوں نے ان نامی گرامی اساتذہ کا تذکرہ بھی کیا ہے جن کے فیض صحبت سے انہیں اکتساب دانش کی سعادت میسر آئی۔اس زمانے کے چکوال کا نقشہ بھی خوب کھینچا ہے۔اپنے کئی دوستوں کی زندگی کے دلچسپ اور درخشاں پہلو بھی قلم بند کیے ہیں۔بعد ازاں بنیادی جمہوریتوں کے پہلے انتخابات کا تذکرہ کر کے سیاست کا تڑکا بھی لگا دیا۔پھر لاہور میں اپنے زمانہ طالب علمی،ملازمت اور محرم سے مجرم بننے تک کے سفر کی داستان بھی بے ساختہ انداز میں سناتے ہیں۔ان کا مشاہدہ جہاں قدم قدم پر معجز نمائی کے پھول کھلا کر قاری کو چشم تصور سے نادیدہ دریچوں سے جھانکنے کی اجازت دیتا ہے وہاں ان کی قابل رشک یاداشت بچپن اور جوانی کی شرارتوں سے پردہ اٹھا کر ہمیں محظوظ ہونے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔بزم احباب سہگل آباد،ارباب غالب چکوال جسے ادبی اداروں کا ذکر کر کے انہوں نے کئی قد آور ادبی شخصیات کو ان صفحات میں امر کر دیا ہے۔پیر پھلاہی کالج ،چکوال کالج میں اپنی زندگی کے سنہری ایام کا تذکرہ بھی پراز معلومات ہے۔عمرہ اور حج کی سعادت سے بہرہ مندی بھی قدرت کی طرف سے ودیعت ہوئی۔پھر ایک کتاب کئی کہانیاں کے عنوان سے گلشنِ سدا بہار اور اپنے خانگی حالات کو بھی تفصیلاً بیان کیا ہے۔جس کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اپنی خانگی زندگی میں بھی انہوں نے بڑی قربانیاں دیں اور بحیثیت پسر،پدر،شوہر اور بھائی اپنے گھر اور جملہ خاندان کے فرائض کی بجا آوری میں ہمیشہ سرگرم عمل رہے۔اور اب بھی ہیں۔
کتاب کے آخری حصے میں میری دنیائیں۔میرے رنگ کے عنوان سے بڑی خوبصورت بات کہتے ہیں کہ میں نے اپنی کسی دنیا کو اور کسی موسم کو خفا ہو کر رخصت نہیں ہونے دیا اور بھلا ہو میری دنیائوں اور مختلف موسموں کا کہ میں نے جب بھی انہیں یاد کیا ہے آواز دی ہے وہ جھٹ میرے پاس لوٹ آئے ہیں مزید لکھتے ہیں کہ جب مُڑ کر پیچھے دیکھتا ہوں تو کوئی عہد،کوئی موسم مجھ سے ناراض نظر نہیں آتا۔بلا شبہ اس بات کی صداقت میں کسی کو کوئی شبہ نہیں کیوں کہ انہوں نے ہمیشہ محبتیں بانٹی ہیں اور اس کے جواب میں انہیں بھی محبتوں کی سوغاتیں پیش کی گئیں باقی موسموں میں تغیر و تبدیل ہوتا رہتا ہے۔آج کا معاشرہ پون صدی پہلے کے معاشرے سے مختلف ہو چکا ہے۔اقدار و روایات تبدیل ہو چکی ہیں۔اور آئندہ بھی یہ تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی رہیں گی۔بقول شاعر

ابھی کیا ہے ابھی رنگِ گلستاں اور بدلے گا
صبا کہتی ہے مفہوم بہاراں اور بدلے گا

آخر میں ہماری دعا ہے کہ پروفسیر سعید اکرم کے آنگن میں کبھی تھکن کی دھوپ نہ اُترے وہ اسی طرح سرگرم عمل رہیں اور تخلیقی سرمائے میں اضافہ کرتے رہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے