اسلام آباد (چکوال پلس نیوز) —
پاکستان کی سیاسی، صحافتی اور فکری دنیا آج ایک جاندار آواز سے محروم ہوگئی۔ معروف صحافی، کالم نگار اور سینیٹر عرفان صدیقی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ وہ گزشتہ دو ہفتوں سے اسلام آباد کے ایک نجی اسپتال میں زیرِ علاج تھے۔
ذرائع کے مطابق عرفان صدیقی کو سانس لینے میں دشواری اور دیگر پیچیدگیوں کے باعث اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں ان کی حالت بگڑتی چلی گئی اور وہ جانبر نہ ہوسکے۔ ان کی عمر تقریباً 77 برس تھی۔
سیاسی و پارلیمانی خدمات
عرفان صدیقی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر تھے اور پنجاب سے سینیٹ کی جنرل نشست پر منتخب ہوئے تھے۔ وہ پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں حکمران جماعت کے پارلیمانی لیڈر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
وہ خارجہ امور کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین بھی تھے، جبکہ بزنس ایڈوائزری، انسانی حقوق، اطلاعات و نشریات، داخلہ اور منشیات کنٹرول کی کمیٹیوں کے بھی رکن تھے۔
ان کی سینیٹ کی مدت مارچ 2027ء تک تھی۔
قلم سے پارلیمنٹ تک کا سفر
عرفان صدیقی کا شمار اُن شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی صحافت، تجزیہ نگاری اور فکری بصیرت کے ذریعے قومی مباحثے کو نئی سمت دی۔
انہوں نے طویل عرصے تک کالم نگار اور تجزیہ کار کے طور پر ملک کے معروف اخبارات میں لکھا۔ اُن کی تحریریں سنجیدگی، شائستگی اور حقیقت نگاری کے امتزاج سے مزین تھیں۔
ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ہلالِ امتیاز سے بھی نوازا۔
نواز شریف کے قریبی ساتھی
عرفان صدیقی کا شمار مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کے قریبی رفقا میں ہوتا تھا۔
وہ سابق وزیرِ اعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ بھی رہے، اور مختلف ادوار میں جماعت کے فکری اور نظریاتی پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
قوم ایک درد مند، شائستہ اور باوقار آواز سے محروم ہوگئی
عرفان صدیقی کے انتقال پر سیاسی و صحافتی حلقوں میں گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
وزیراعظم، وزرا، صحافی برادری اور دانشوروں نے انہیں ایک مدبر، بردبار اور اصول پسند شخصیت قرار دیتے ہوئے ان کے انتقال کو ملک کے لیے بڑا نقصان قرار دیا۔
خراجِ عقیدت
عرفان صدیقی کی یاد میں ساتھیوں نے کہا کہ
"انہوں نے قلم کی حرمت اور گفتگو کے آداب کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ وہ لکھنے اور بولنے دونوں میں وقار، توازن اور سچائی کے علمبردار تھے۔”
ان کے انتقال سے ملک ایک ایسے دانشور سے محروم ہوگیا ہے جو نہ صرف حالات کا گہرا ادراک رکھتا تھا بلکہ قومی بیانیے کو فکری بنیادیں فراہم کرتا تھا۔



