محترمہ کرم خاتون(بیگم غلام علی تارڑ) تحریک پاکستان کی سرگرم کارکن

Spread the love

تحریر : سعدیہ سفیر تارڑ

ابتدائے آفرینش سے معاشرتی تہذیب و تمدن اور بیداری کی تحریکوں میں خواتین کا کردار بلاشبہ کلیدی رہا ہے۔ مگر ابتداءمیں یہ کردار ہمیشہ بلاواسطہ رہا اور دھیرے دھیرے اس کردار نے اپنا مقام خود متعین کیا۔ اسی طرح بیداری کی تحریکوں کے ابتدائی ادوار میں عموماً وہ خواتین پہلے میدان عمل میں نکلیں۔ جن خاندانوں اور گھرانوں کے مردوں نے یہ تحریکیں شروع کیں۔ تحریک پاکستان میں چکوال کے خطہ شمشیر زن کی خواتین کے کردار کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے، جو رفتہ رفتہ اپنی سمت خود متعین کرتا چلا گیا اور مردوں کے شانہ بشانہ خواتین کی زبردست جدوجہد کی صورت میں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے آزاد وطن کے حصول کی منزل پر منتج ہوا۔

میڈل لینے کے بعد سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف ،سابق صدر رفیق تارڑ ، کرنل(ر) محمد سفیر تارڑ اور سعدیہ سفیر تارڑ،گروپ فوٹو

چکوال کی جن خواتین کو انفرادی اور اجتماعی انداز میں تحریک پاکستان میں حصہ لینے کا اعزاز حاصل ہوا ان میں ”گاﺅں کرنل امام“ سے تعلق رکھنے والی محترمہ کرم خاتون (بیگم غلام علی تارڑ) کا نام نامی قابل ذکر ہے۔ جنم تو انہوں نے چکوال شہر سے شرقی جانب چکوال جہلم روڈ کے ساتوں میل پر بائیں جانب مڑنے والی سڑک پر واقع عظیم الشان مانومنٹ ”باب کرنل امام “ سے تقریباً دو میل دور موضع چتال کے ایک خوشحال زمیندار گھرانے میں لیا مگر کم سنی میں ہی ماں باپ کے درمیان ناچاقی کے باعث ان کی والدہ محترمہ کی درخواست پر چکوال شہر کی ایک نہایت ہی معزز اور با اثر شخصیت اور مسلم لیگ چکوال کے بانی صدر قاضی غلام احمد ایڈووکیٹ نے انہیں اپنی کفالت میں لے لیا۔ خدا ترس اور خیرخواہی کے پیکر اس عظیم انسان نے بچی کی پرورش اپنی بیٹیوں کی طرح کی۔ اللہ کی حکمت کہ چکوال کا ایک نہایت ہی ممتاز مذہبی، علمی اور ادبی گھرانہ اس بے اماں مگر خوش بخت بچی کے لئے تربیت گاہ اور گوشہ عافیت بنا جس کے پاکیزہ ماحول نے ان کی شخصیت پر گہرے نقوش چھوڑے۔

سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف ،تحریک پاکستان کی سرگرم خاتون ،محترمہ کرم خاتون کیلئے مختص گولڈ میڈل ان کی پوتی سعدیہ سفیر تارڑ کو پہناتے ہوئے

محترمہ کرم خاتون نے جب سن شعور میں قدم رکھا تو اپنے آپ کو نہایت ہی پاکیزہ مذہبی و علمی کے ساتھ ساتھ سرگرم سیاسی اور سماجی ماحول میں پایا، جہاں تحریک پاکستان کے حوالے سے انہیں گہرا تاریخی ، سیاسی، سماجی اور ثقافتی شعور ملا۔ ”قاضی خانہ“ کے نام سے موسوم قاضی غلام احمد صاحب کے گھرانے میں ، جس ممتاز گھرانے کی وہ ایک ہونہار بیٹی تھیں، انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے نہ صرف مسلم لیگ کو بنتے ، منظم ہوتے اور پروان چڑھتے دیکھا بلکہ تحریک پاکستان کا پیغام عام کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ مسلم لیگ کی تنظیم سازی کے دوران ’قاضی خانہ‘ اور محلہ خواجگان کی بزرگ خواتین کے ہمراہ وہ شہر کے گھر گھر جاتیں اور مسلم لیگ کا پیغام خواتین خانہ تک پہنچاتیں۔ بسا اوقات مسلم لیگی خواتین کا یہ گروپ قریبی محلوں اور آبادیوں سے ہوتا ہوا، پیدل بھون روڈ پر واقع انجمن اسلامیہ چکوال اور کبھی کبھار بھون چوک تک تحریک پاکستان کے مقاصد اجاگر کرتا ہوا جاتا۔ شادی کے بعد خوف خدا اور عشق نبی میں ڈوبی ،توکل بھری یہ دانش مند خاتون اپنے آبائی گاﺅں چتال میں اپنے شوہر نامدار مسلم لیگی کارکن چوہدری غلام علی تارڑ کے شانہ بشانہ تحریک پاکستان کے مشن میں ان کی ممدومعاون ہوگئیں۔ صدر چکوال مسلم لیگ کی جانب سے جب ان کے خاوند کے نام مسلم لیگ کے جلسے جلوسوں کے خصوصی دعوت نامے موصول ہوتے ، تو وہ بڑے سلیقے اور طریقے سے ان پروگراموں کی تفصیلات اور تحریک کے عظیم مقاصد کا ذکر گاﺅں اور علاقے کی خواتین کے ساتھ کرتیں تاکہ ان میں بھی تحریک پاکستان کا شعور پیدا ہو۔

قاضی غلام احمد صاحب جیسے اکابرین کو، جن کی پدرانہ شفقت کے سائے میں ان کی پرورش اور تربیت ہوئی، ذہن میں رول ماڈل سمائے ، وہ اپنے شوہر کے سیاسی مقام و مرتبہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کی سماجی ترجیحات اور ضروریات کو ہمہ وقت مقدم رکھتیں۔ تحریک پاکستان کی سرگرمیوں کے حوالے سے ان کے شوہر اکثر چکوال، چوآسیدن شاہ، پنڈدادن خان ، جہلم اور لاہور کے سفر پر ہوتے۔ جب ان کے خاوند چکوال یا ملک کے دوسرے شہروں میں مسلم لیگ کے جلسے جلوسوں میں شرکت کے لئے جا رہے ہوتے تو وہ ان کی کریم کلر کی خوبصورت شیروانی پر ان کے جنگی تمغوں کی لمبی قطار سجا کر ان کی بڑی ٹنری پگ تیار کر کے رکھتیں۔ جب وہ اپنے گاﺅں یا قرب و جوار کے مواضعات میں اس مقصد کے لئے جا رہے ہوتے تو وہ اپنے تین سالہ بیٹے سلطان امیر تارڑ کو بڑے اہتمام سے تیار کر کے ان کے ساتھ بھیجتیں تاکہ بچے کے ذہن میں وطن سے محبت اور آزادی کا شعور پختہ ہو۔ یہ اس عظیم خاتون کی تربیت کا ہی اثر تھا کہ ان کی اسی بیٹے نے اسلام کی سربلندی اور اپنے وطن کی آزادی کے لئے اپنی پوری زندگی عملی جہاد کیا اور وقت آنے پر بڑے دھڑلے سے اپنی جان وطن کی سلامتی پر قربان کر دی اور شہادت کے اعلیٰ مقام پر سرفراز ہوئے۔

بدبخت گستاخ رسول ڈاکٹر رام گھوپال کو ضلع حصار میں واصل جہنم کرنے والے عاشق رسول غازی مرید حسین شہید کی میت جب 24 ستمبر 1937 ءکو جہلم سے جلوس کی شکل میں موضع چتال کے علاقے میں پہنچی تو انہوں نے اپنے گاﺅں کی خواتین کی کثیر تعداد کے ہمراہ شہید کا استقبال کیا۔ وہ بتایا کرتی تھیں کہ علاقے کے مردو زن بڑی تعداد میں ٹولیوں کی شکل میں کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے شہید کے استقبال کے لئے آ رہے تھے۔ چکوال جہلم روڈ پر درود شریف پڑھتے مردو خواتین کا ایک جم غفیر تا۔ وہ ایک روح پرور منظر تھا اور فضا اللہ اکبر، کلمہ طیبہ اور درود شریف کی صداﺅں سے گونج رہی تھی ، ہر طرف نور ہی نور تھا۔ بعض خواتین پنجابی کا یہ ٹپہ ترنم سے گائے جا رہی تھیں

……..
غازی بھلے دیا چا پنڑ کے پی تی آ

کلمیاں دین دیا کنی سوہنڑی کی تی آ

پنجابی ٹپے میں پہلا مصرع عموماً قافیے کو قابو کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو کبھی کبھی نہایت ہی پراثر اور بامعنی ہوتا ہے جب کہ دوسرے مصرعے میں مدعا و مطلب بیان کیا جاتا ہے۔ اس ٹپے کے پہلے مصرعے میں کہا گیا ہے ” چائے پن کر (چھان کر) پینے والے بھلہ شریف سے تعلق رکھنے والے غازی مرید حسین، تو نے بدبخت گستاخ رسول ڈاکٹر رام گھوپال کو واصل جہنم کر کے حرمت رسول پر اپنی جان قربان کردی۔ اے شیر دل غازی ، اے دین اسلام کے کلمے کی طرح پاک شہید تیرا یہ عمل کتنا ہی خوبصورت ہے۔
14 اگست 1947 ءکو خطہ ارض پر پہلی مسلم نظریاتی مملکت پاکستان وجود میں آئی، جس کے قیام کے لئے محترمہ کرم خاتون نے اپنے شوہر نامدار کے شانہ بشانہ بھرپور جدوجہد کی مگر چند روز بعد ہی 5 ستمبر 1947 ءکو ان کے خاوند اپنے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو گردش دوران کی نذر کرتے ہوئے ایک جانکاہ حادثہ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ بیگم غلام علی تارڑ نے اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کو مشکل ترین حالات اور اعصاب شکن لمحات میں ایسے احسن طریقے سے نبھایا کہ ان کے بیٹے بڑے ہو کر علاقہ کے لوگوں کے لئے رول ماڈل بنے۔

محترمہ کرم خاتون کو خطے کی آزادی اور پاک وطن کی سلامتی پر اپنی جان نچھاور کرنے والے بین الاقوامی شہرت کے حامل عظیم مجاہد اور جہاد افغانستان کے افسانوری کردار کرنل سلطان امیر تارڑ المعروف کرنل امام ؒ شہید اور انٹرسروسز پبلک ریلیشنز کے کرنل محمد سفیر تارڑ کی عظیم ماں ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

ملک و قوم کے لئے بے لوث اور انتھک جدوجہد کرنے والی یہ عظیم خاتون 76 سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد 30 اکتوبر 1993 ءکو صبح 4 بجے سی ایم ایچ راولپنڈی میں انتقال فرما گئیں اور اپنے آبائی گاﺅں چتال میں پیوند خاک ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں(آمین)


23 مارچ 2016 ءکو ایوان اقبال لاہور میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں تحریک پاکستان میں نمایاں خدمات کے اعتراف کے طور پر محترمہ کرم خاتون کو تحریک پاکستان گولڈ میڈل کا نذرانہ تشکر پیش کیا گیا جو ان کی پوتی سعدیہ سفیر تارڑ نے وصول کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے