’’ماں‘‘

Spread the love

سعیدنوابی

میں نے سوچا ماں ایک پھول ہے‘ جس میں خوشبو ہی خوشبوہے لیکن نہیں پھول تو خوشبو کھو دیتا ہے‘ مرجھا جاتا ہے سوکھ جاتا ہے،پھول کا حسن ‘پھول کی خوشبو‘اس کی زندگی اوررعنائی سب کچھ ہی تووقتی ہے ۔پھر خیال آیا ماں آسمان سے برسنے والی بارش ہے جوہریالی لاتی ہے ،ماحول کو خوشگوار بنادیتی ہے اور جو زندگی کا سبب بنتی ہے۔ لیکن نہیں ہریالی اور زندگی کا سبب بننے والی بارش تو تباہی کا سبب بھی بن جاتی ہے۔پھر میں نے سوچا ماں گھنے درخت کے سائے کی طرح ہے۔جس میں راحت ہی راحت ہے‘ سکون ہی سکون ہے لیکن نہیں سایہ تو ڈھل جاتا ہے‘ رات کے اندھیرے میں اس کی وقعت ختم ہوجاتی ہے موسم سرد ہو تو اس کے قریب جانے کو جی نہیں چاہتا۔میں نے مزید سوچا تو خیال آیا ماں کی مثال چاند اور ستاروں کی سی ہے جو زینت ہیں اس جہاں کیلئے لیکن چاند اورستارے تو دن کے اجالے میں غائب ہوجاتے ہیں اور وہ کبھی ہمارے قریب بھی تو نہیں آتے۔ساتھیو! میں نے سوچا اورسوچتا چلا گیا،آخرمیں جس نتیجے پر پہنچا وہ یہی تھا کہ خدا کے اِس جہان میں کوئی چیزماں جیسی نہیں ،ماں تو بس ماں ہے ۔
ہنری وارڈ بیچر کہتا ہے ’’ماں اپنے بچوں کیلئے جیسی دوستی اورمحبت رکھتی ہے اس کی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی‘‘
ایلک ہائوتھارن نے کہا ’’ماں کی آواز ایک دیوتا کی آواز ہے اپنے بچوں کیلئے، جب وہ پکارتی ہے تو تعظیم کے جذبات امڈ آتے ہیں‘‘
اوسکر وائلڈ کے مطابق ’’بچے اپنی ماں کی محبت کے حصار میں پرورش پاتے ہیں،وہ ان کی تربیت کرتی ہے اوران کی غلطیوں پر انہیں معاف کرتی رہتی ہیـــ‘‘
بیکن نے کہا ’’ایک چیز ہے جو نہ ہوتی تو دنیا محبت‘ شفقت اوررحمدلی کی اصل معلوم کرنے سے محروم رہتی اوروہ چیز ماں ہے‘‘
ولیم پین کے مطابق ’’کسی بھی بچے کیلئے اس کا سب کچھ اس کی ماں ہوتی ہے‘‘
مولانا روم نے کہا ’’ماں کے بغیر گھر سونا‘ ویران بلکہ مانند قبرستان ہے‘‘
شیخ سعدی کے بقول ’’عورت کا درجہ جنت کی حوروں سے بڑھ کر ہے‘ حوریں جنتیوں کی خادم ہیں مگر عورت جب ماں کے روپ میں آجائے تو نبی بھی اس کی تعظیم کیلئے کھڑے ہوجاتے ہیں‘‘
احساسات اورجذبات کے اعتبار سے ساری مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں جو جذبات اوراحساسات عرب کی ام کے ہیں وہی یورپ کی مما کے بھی۔جو سوچ ایران کی ’’مادر‘‘رکھتی ہے وہی سوچ پاکستان کی ’’اماں‘‘ بھی۔اگر کوئی پوچھے بتائو دنیا میں خالص ترین چیز کیا ہے جو ساتوں براعظموں میں ہرجگہ ملتی ہو تو جواب ہے ماں کی محبت،اگر کوئی پوچھے اخلاص کہاں ملے گا جواب ہے ماں کے دل میں،اگر کوئی پوچھے دنیا میں سب سے خوبصورت ترین چیز کیا ہے تو جواب ہے ماں‘ اگر کوئی پوچھے وہ کیا چیز ہے جو انسان کو نہ ملتی تو یہ اس کی سب سے بڑی محرومی ہوتی جواب ہے ’’ماں‘‘ حسن بصری نے کہا ’’عورت کچھ بھی بن جائے مگر نبی نہیں بن سکتی ‘‘ رابعہ نے جواب دیا آپ کی بات درست ہے مگر عورت ہی ہے جس نے نبی جنے‘ عورت ماں کی شکل میں آکر نبیوں کیلئے بھی واجب التعظیم بن گئی۔
دنیا کے تمام مذاہب ماں کو عزت واحترام دیتے ہیں لیکن جب ہم یہودیت‘ عیسائیت ‘بدھ مت‘ ہندو ازم اوراسلام کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات نکھر کر سامنے آتی ہے کہ جو تقدس ‘جو احترام ‘ جو عزت‘ جو عظمت اورجو مقام ماں کو مذہب اسلام نے دیا ہے دوسرے مذاہب میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے ‘ ہندوئوں‘ عیسائیوں اوریہودیوں کے ہاں ماں کی عظمت کی جہاں انتہا ہوتی ہے اسلام میں ماں کی عظمت کی وہاں سے ابتداء ہوتی ہے۔اسلامی دنیا میں مائوں کی قربانیاں اولاد کیلئے اوراولاد کی قربانیاں مائوں کیلئے اس قدر ہیں کہ ان کا احاطہ دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے‘کتنے واقعات ہیں کہ ماں نے اپنے بچے کیلئے اپنی جان قربان کردی اورکتنے واقعات ایسے کہ بیٹا اپنی ماں پر قربان ہوگیا۔نور حسین تو میرے گائوں کا ہی تھا جس نے ماں کی پکار پر بیری کے ایک اونچے درخت سے چھلانگ لگا دی کہ کہیں ماں کی خدمت میں حاضر ہونے میں تاخیر نہ ہوجائے ۔کرم دین ان پڑھ تھا مگر ماں کا مقام اسے معلوم تھا،اس نے ساری زندگی کبھی ماں سے اونچی آواز میں بات نہ کی،اس نے کبھی ماں کی طرف پائوں نہ کیے اوروہ کبھی ماں کے ساتھ چارپائی پر برابر نہ بیٹھا۔شیخ عبدالقادر جیلاتیؒ کی عمر اس وقت بارہ برس تھی جب رات کو وہ مطالعہ کررہے تھے ماں نے پانی مانگا وہ گلاس میں پانی لے کرآئے،ماں کی دوبارہ آنکھ لگ چکی تھی،وہ ساری رات پانی کا گلاس ہاتھ میں لیے کھڑے رہے کہیں ایسا نہ ہوکہ ماں کی آنکھ کھلے وہ پانی مانگے اورپانی پیش کرنے میں تاخیر ہوجائے۔علامہ اقبال کی والدہ محترمہ فوت ہوئیں تو اس عظیم شاعر نے اٹھاسی اشعار پر مشتمل نظم اپنی ماں کی یاد میں لکھ ڈالی۔ساری دنیا کے لٹریچر میں ماں کی یاد میں لکھی گئی اتنی طویل نظم کہیں نہیں ملتی۔اقبال نے اسی نظم میں کہا تھا۔

کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار؟
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار؟
خاک مرقد پر تری لیکر یہ فریاد آئوں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو یاد آئوںگا؟
دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین ودنیا کا سبق تیری حیات

اسلام نے تعلیم دی جنت ڈھونڈتے ہو‘ بہت قریب ہے ماں کی خدمت کرو جنت ملی جائیگی۔ماں کو محبت کی نگاہ سے دیکھو گے حج کاثواب مل جائے گا‘ماں پکارے تو فوراً لبیک کہو‘ بعض حالات میں تو نمازتوڑ کر بھی ماں کی پکار کا جواب دینا ضروری ہے‘اسلامی تاریخ میں بڑے بڑے جرنیل گزرے‘ عظیم لیڈر اوررہنما آئے محدث اورفقیہہ پیدا ہوئے،تاریخ بتاتی ہے ان عظیم سپوتوں کی عظمت کا راز یہ ہے کہ ان کو عظیم مائوں نے جنم دیا وہ مائیں کہ جو بچوں کو دودھ پلاتیں تو ان کی زبان قرآن کی تلاوت میںمشغول ہوتی ‘ جو چکی چلاتیں تو زبان پر اللہ کا ذکر ہوتا جو درود کا ورد کرتے روٹی بناتیں‘ جو اللہ اللہ کرتے آٹا گوندھتیں‘ جن کی عصمت وپاک دامنی کا یہ عالم تھا کہ درودیوار بھی ان سے حیاء کرتے‘ جن کی زبان جھوٹ سے ناآشنا تھی جن کی گفتگو میں غیبت کا تصور نہ تھا‘ وہ گھر کا حسن تھیں‘ گھر میں رونق ان کے دم سے تھی‘ اپنی اولاد کیلئے وہ ایک عملی نمونہ تھیں۔ایسی مائوں سے حسین ابن علیؓ‘ عمر بن عبدالعزیزؒ‘ طارق بن زیادؒ‘ ابن قاسمؒ‘ صلاح الدینؒ ایوبی‘ امام بخاریؒ‘ امام ابو حنیفہؒ‘ امام شافعیؒ‘ امام ابویوسفؒ‘ ابن حجر ؒ اورابن تیمیہؒ جیسے لوگ پیدا ہوئے جس قوم کو ’’مائیں ‘‘ مل جائیں عروج اس کا مقدر بن جاتا ہے۔خوش قسمت ہیں وہ جن کی مائیں زندہ ہیں،اُن کا حج اُن کی جنت!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے