قمر اقبال صوفی… عصر حاضر کے ممتاز روحانی دانشور

Spread the love

کسی مجذوب سے دراز گیسو، پینٹ شرٹ میں ملبوس ، چوڑے چکلے سینے پر ایک بڑا سا شیر کا دانت لٹکائے، قمر اقبال صوفی روایتی صوفیوں سے الگ ایک ایسی منفرد شخصیت کے روپ میں سامنے آتے ہیں جن میں شرافت ، وجاہت ، شیریں کلامی ، خوش مزاجی ، خلوص اور وضعداری جیسی اعلیٰ صفات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔

Prof. Dr. Arshad Mehmood, University of Chakwal.

قمر اقبال صوفی نے 30 جنوری 1957 ء کو شہر چکوال کے قدیمی محلے سرپاک میں کرنل (ر) چوہدری محمد اقبال کے گھر میں اس جہان ِ رنگ و بُو میں آنکھیں کھولیں۔ اپنے والدِ محترم کے فوجی کیرئیر کی وجہ سے بچپن میں مختلف چھائونیوں میں رہائش پذیر رہے۔ ابتدائی تعلیم لاہور میں ہی حاصل کی۔ 1977ء سے ہالینڈ میں مقیم ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک کی سیاحت کی مگر اپنی پاک سرزمین سے وابستگی اور محبت کے رشتے کو کبھی کمزور نہیں ہونے دیا۔
آپ کا حلقہ تعارف و تعلق نہایت وسیع ہے۔ اہل علم و دانش علماء صلحاء ، طلباء ، وکلائو خطباء سب سے ان کے دوستانہ مراسم ہیں۔ وہ ہر شخص سے اس کے منصب و مرتبہ اور اس کی دلچسپیوں کے مطابق تخاطب فرماتے ہیں۔ کثرتِ احباب و تعلقات کی وجہ سے آپ کی زندگی بہت مصروف گزرتی ہے۔ ضرورت مندوں کی ہر ممکنہ خدمت و مدد ان کے لئے عبادت سے کم درجہ نہیں رکھتی۔ کسی کو فون پر دم کر رہے ہیں تو کسی کے لئے دستِ دعا بلند کر کے زیر لب اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرضداشت پیش کرتے ہیں۔
سیاسی خاندان سے قریبی تعلق ہونے کے باوجود سیاست کے اس طوفان میں خود کو کبھی غرق نہیں ہونے دیا اور اعتدال کو کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ان کے دل میں سب آنے والوں کیلئے احترام ہوتا ہے اور سیاسی نفرت کے کانٹوں میں پنے ذہن کو کبھی الجھنے نہیں دیا۔ اپنے گھر میں منعقدہ ذکر و فکر کی محافل اور بیٹھکوں میں مختلف موضوعات پر دھیمے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں اور حاضرین کے مختلف روحانی سوالوں کے جوابات تشفی آمیز طریقے سے دیتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان تمام معاملات میں خلوص اور محبت کی چاشنی بدرجہا اتم موجود ہوتی ہے۔

 Sufi Qamar Iqbal

کسی بھی قسم کی غرض یا لالچ کو بیچ میں نہیں لاتے۔ اپنے مافی الضمیر کے اظہار میں کسی تکلف اور تصنع کو روا نہیں رکھتے بلکہ اپنے محسوسات کو صاف اور سادہ زبان میں ایسی بے ساختگی سے بیان کرتے ہیں کہ اظہار اور ابلاغ کے درمیان کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔
کائنات کی روش میں دو قسم کی روشوں کا مشاہدہ ہوتا ہے ایک ارتقائی یعنی وہ مدھم چال کہ جس کو انسان محسوس نہیں کرتا کہ اس کی زندگی میں کسی قسم کی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں جب کہ دوسری روش انقلابی ہے یعنی بہت تھوڑے وقت میں فطرت کی طاقتوں کا یک جا ہو کر بم کی طرح پھٹنا اور نمایاں تبدیلیاں ظہور میں آنا ہے۔ پہلا طریقہ جمالی ہے دوسرا جلالی … صوفی صاحب کی حیات میں ہر دو طرح کی کاوشیں روبہ عمل نظر آتی ہیں۔ اس لئے آپ کی شخصیت ایک حقیقی درویش کی شخصیت ہے۔ جو ظاہری اور باطنی حسن سے مالا مال ہے۔ روحانیت اور تصوف پر تحریر کی گئی جدید و قدیم کتب کا مطالعہ بھی آپ کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ حضرت توکل شاہ انبالویؒ ، حضرت شاہ ولی اللہ ؒ، حضرت شاہ عبدالحئی ؒ جیسے کامل بزرگان دین کی کتب اکثر زیر مطالعہ رہتی ہیں۔ علاوہ ازیں علامہ محمد اقبال ؒ کی فکر اور تدبر سے بھی متاثر دکھائی دیتے ہیں۔
آپ کے روحانی سفر کا آغاز سال 1980ء سے ہوا۔ کئی سال تک مختلف علوم جیسے پامسٹری، اسٹرالوجی، رمل ، جفر ، کارڈز ، ریکی ، کلرتھراپی ، مائنڈ سائنسز اور مختلف اقسام کی شفائی صلاحیتوں جیسے کہ دم، دعا کے علاوہ مختلف قسم کے مخفی علوم سے وابستہ رہے۔ جیسے روحوں سے ملاقات اور مستقبل کی پیش گوئیاں وغیرہ، مگر آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعے جس نقطے کو زیادہ اجاگر کیا وہ یہ ہے کہ انسانی روح (Human soul) میں بے پناہ طاقت و توانائی (Potential) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے۔ مگر اس کے بارے میں صحیح علم نہ ہونے کی بناء پر اسے عملی استعمال میں لانے سے قاصر ہیں۔ اب وہ عوام الناس کی رہنمائی کی اس سمت رہنمائی کرتے رہتے ہیں مخفی توانائی اور ذہانت کو کس طرح فعال (Activate) کرنا ہے اور اس سے کس طرح خود مستفید ہونا ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچانا ہے۔ صوفی صاحب کے کتابی شکل میں روحانی سرمائے کا ذکر کیا جائے تو ہمیں اس امر کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ان تمام کتب کے ہر ورق پر صاحب کتاب منعکس نظر آتے ہیں۔ ان کتب سے ہماری دنیا و عاقبت سنور سکتی ہے اور معرفت کی راہیں بھی روشن ہوسکتی ہیں۔ قدرت اپنے پیغام کو پہنچانے کیلئے دیے سے دیا جلاتی رہتی ہے۔ معرفت کی مشعل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہوتی رہتی ہے۔ صوفی صاحب نے بھی اپنی خوبصورت کتب کے ذریعے اس مشعل کو روشن کرنے کی حسین سعی کی ہے۔
تادم زیست آپ کی چھ کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ جن میں سے چار کتب کا بنیادی موضوع ہماری روحانیت ہے جب کہ ایک کتاب بزنس اور دوسری پامسٹری کے موضوع پر تحریر کی گئی ہے۔ آپ کی اولین اور اہم ترین کتاب ’’روحانیت ، دانش اور حقیقتیں‘‘ ہے۔ خوبصورت سرورق اور اجلی طباعت کی حامل اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن مارکیٹ میں آ چکا ہے۔ ٹائٹل پر درج یہ جملہ اس کتاب کی افادیت کو اجاگر کرتا ہے کہ جس کسی کو مرشدِ کامل نہیں ملا وہ اس کتاب کو ضرور پڑھے۔ تعارف میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کتاب کا موضوع’’ علم‘‘ہے۔ یہ ایک قاموسی کتاب ہے اس میں تقریباً 150 سے زائد متنوع موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ یہ کتاب صوفی صاحب کی برسوں کی روحانی ریاضت ، آپ کے تجربات، مشاہدات اور محسوسات پر مشتمل ہے۔ جنہیں بڑی خوبصورتی سے حوالہ قرطاس کیا گیا ہے۔
اس کتاب کے اہم موضوعات اسلامی روحانیت اور دیگر مذاہب ، شعور اور لاشعور ، یقین کامل، نماز، قناعت، صبر ، توکل علی اللہ ،ڈر ، خوف ، نفرت ، غصہ ، مثبت سوچ، مولوی ، فرقے اور مسائل ، فرقہ پرستی اور مزارات ،اسلامی روحانیت کا تقابلی جائزہ، پیر اور مرید، ارتکاز توجہ، سوچ کی طاقت تصورات کی مشق، مراقبات، صحبت ، امپریشن ، ریفلیکشن ، نفس، عشق، کشش کا اصول، قضا، قدر، انسان کی حدود ، خود احتسابی، کشف و الہام، دعا، دست شناسی، میگناٹزم ، خدا کی تلاش وغیرہ ہیں۔ متنوع موضوعات کی یہ کہکشاں اس کتاب کی اہمیت اجاگر کرتی ہے۔
صوفی صاحب اس کتاب کے اختتامی صفحات میں یہ پیغام پیش کرتے ہیں کہ ’’انسانی روح میں اللہ کے نور کا ذرہ موجود ہے۔ روح میں سب صلاحیتیں چھپی ہوتی ہیں۔ روح اور انسان کا لاشعور مل کر کام کرتے ہیں۔ ڈر، منفی سوچیں اور شک و شبہ روح کی بے حساب توانائی کو دبائے رکھتے ہیں۔ ان کے ختم ہوتے ہی یہ توانائی باہر آ جاتی ہے۔ روحانی اور دنیاوی ہر کامیابی کا دارومدار یقین کامل پر ہے۔ اور اس کی سیڑھیاں …۱۔ تجربات ۔۲۔ کامیابیاں …۳ ۔ اعتماد …۴۔ یقین کامل …۵۔ توکل علیٰ اللہ ہیں۔ صوفی صاحب نے یقینا زندگی کے اہم پہلوئوں پر سادہ عام فہم اور مفصل طریقے سے گفتگو کی ہے۔
آپ کی ایک اور اہم کتاب ’’روحانی قوت اور دانشِ انسانی ‘‘ ہے۔ یہ کتاب بھی کم و بیش 93 چھوٹے بڑے ابواب پر محیط ہے۔ کتاب کے تعارف میں بتایا گیا ہے کہ کچھ سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جیسے کہ کائنات میں انسان کا مقام کیا ہے؟ کیا انسان جسمانی ہستی ہے یا روحانی؟ کرامات آج کل کیوں نہیں ہو رہیں۔ ولی کون لوگ ہیں ؟ وہ کہاں پائے جاتے ہیں؟ وغیرہ کے علاوہ ایک اہم موضوع یہ بھی زیر بحث لایا گیا ہے کہ اگر ہم مسلمان ہی صحیح ہیں تو پھر ہم ہی دنیا میں ہر جگہ ذلیل کیوں ہو رہے ہیں اور گورے (مغربی لوگ) اگر غلط ہیں تو وہ کیوں ہر جگہ کامیاب ہیں۔ اور بڑے لمبے عرصے سے کامیاب جا رہے ہیں۔ اسی کتاب کے صفحہ نمبر 276 پر صوفی صاحب رقم طراز ہیں۔ ’’مراقبات، عبادات(خصوصاً نوافل پڑھنا اور وردو وظائف) کرنا انسان کی روح میں موجود اس نور کو جگاتی ہیں۔ آپ میں جیسے ایک نوری انسان سویا ہوا ہے۔ وہ ان عبادات سے جاگنے پڑتا ہے۔ اس میں بے پناہ طاقت و توانائی ہے۔ جب کوئی سالک وردو وظائف شروع کرتا ہے تو کچھ ہی دنوں میں اسے ان میں سرور سا آنے لگ پڑتا ہے۔ پھر اسے اپنی کمر میں یا گردن و کندھوں پر لہریں سی چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہاں سچے خواب بھی آنے لگ پڑتے ہیں۔ ‘‘ اسی طرح آپ کی کتاب ’’اسرار روحانیت اور کامیاب زندگی‘‘ میں بھی روحانیت کے کچھ اسرار عوام الناس کے استفادے کیلئے پیش کرنے کی کامیاب سعی کی گئی ہے۔
صوفی صاحب کی ایک اور اہم کتاب بعنوان ’’دولت اور دانش انسانی ‘‘ ہے۔ جسے جاسم پبلی کیشنز لاہور نے 2014ء میں شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ اس کتاب کو پانچ بڑے حصوں میں تقسیم کر کے مزید 52 موضوعات کو چھوٹے ابواب کی شکل میں تقسیم کر کے زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس کتاب کے تعارف میں فاضل مصنف یورپ کے مختلف ممالک میں اپنے ذاتی تجربات کا ذکر کرنیکے بعد بتاتے ہیں کہ اس موضوع پر مغرب کی ترجمہ کی ہوئی کاروبار کی کتابیں اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں باتیں ضرور بتاتی ہیں جن پر عمل کرنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ہوتا ہے۔ میں کاروباری معلومات کا انسائیکلو پیڈیا نہیں بلکہ اہم ترین اور قابل عمل اصول اور معلومات دینا چاہتا ہوں۔ اس کتاب میں اسلامی روحانیت کے اصولوں کے ساتھ ساتھ مغربی ماہرین جیسے تھامس سٹینلے، جان ایف کینڈی ، برتارڈ شا،بوسیروکر وغیرہ کی آرا کو حوالوں کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔جب کہ مشہور ماہر نفسیات پروفیسر ارشد جاوید کی کاروباری لوگوں کے لئے کامیابی کی ٹپس کو بھی عوام الناس کے استفادے کیلئے کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ صوفی صاحب نے ان بڑی اور ضخیم کتب کے علاوہ حال ہی میں عقیدت مندوں اور شائقین کے پرزور اصرار پر کچھ چھوٹے چھوٹے رسالے بھی شائع کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ ان چھوٹے رسالوں میں اسلام اور روحانیت کے سحر جادو اور وہم قارئین کی توجہ کا مرکز ہیں۔ سحر جادو اور وہم میں صوفی صاحب بتاتے ہیں کہ 95 فیصد جادو وہم ہے۔ اس بارے میں وہ مزید صفحہ 14 پر لکھتے ہیں۔
’’ میں خود بہت سے پیروں(خودساختہ اور اصلی) اور نام نہاد اشتہاری عاملوں کو مل چکا ہوں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب بھی یہ میرے ساتھ کھلے تو ان میں سے اکثریت نے خود پر جادو ہونے کی شکایت کی اور مجھ سے اس بارے میں مدد مانگی۔ ان کے کہنے کے مطابق ان دوسرے ’’کاروباری رقیبوں‘‘ نے ان پر بندش یا جادو کیا ہوا تھا۔‘‘
اس مختصر سی کتاب میں صوفی صاحب نے جادو اس کی ماہیت ، اثرات اور اس سے بچائو کے موثر طریقے بڑے سادہ اور سہل انداز میں بیان کئے ہیں۔ الغرض یہ ایسی کتب ہیں جن کے مطابعے سے گمراہ انسان، راہ راست سے ہمکنار ہو سکتے ہیں اور حرماں نصیبوں کو طمانیت کی دولت حاصل ہو سکتی ہے۔ ارباب فکر و نظر کے لئے یہ روشن روحانی کتب یقینا بصیرت افروز ہیں۔
آخر میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ صوفی صاحب جیسے لوگ صاحبان خیر میں سے ہیں۔ مادیت گزیدہ عصرِ حاضر میں صوفی صاحب جیسے لوگوں کی صحبت دلوں پر جمی ہوئی مادیت کی دبیز تہوں کو کھرچ کر اذہان کو مصفی اور مجلیٰ بناتی ہے۔ اور اللہ سے تعلق میں مزید مضبوطی اور استحکام پیدا کر کے ایمان و یقین کی سرشاری عطاکرتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے