...

علاقہ دھنی: تاریخی وجوہات اور طبعی خدوخال

Spread the love

وجہ تسمیہ

علاقہ دھنی کی وجہ تسمیہ کے متعلق کئی روایات ملتی ہیں، جو اس علاقے کی تاریخ اور ثقافت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔

الف:
برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر (1530ء) نے 1519ء میں بھیرہ فتح کیا اور کلرکہار کے مقام پر قیام کیا۔ بابر نے اپنی توزک میں اس واقعہ کا ذکر یوں کیا:

"یہاں سے چلے اور ظہر کے وقت کلدہ کنار (کلرکہار) میں اترے۔ یہاں چاروں طرف خوید کے کھیت کے کھیت تھے۔ یہ مقام قابل دید ہے۔ بھیرے سے دس کوس کے فاصلے پر پہاڑ اور بارش کا پانی یہاں جمع ہوتا ہے۔ اس تالاب کا گھیر تقریباً تین کوس ہے۔ مرغزار کے شمال میں ایک ندی ہے۔ اس کے مغرب میں دنمنہ کوہ ہے۔ اس میں ایک چشمہ ہے جس کا پانی ان بلندیوں پر جو تالاب کے اوپر ہیں، پڑا رہتا ہے۔ چونکہ جگہ عمدہ تھی، اس لیے میں نے یہاں ایک باغ تیار کرایا اور اس کا نام باغ صفا رکھا۔ یہ باغ صاف اور ہوا دار جگہ پر بنا۔”

بابر بادشاہ اس علاقے کے مقامی لوگوں کی محنت، لگن اور خوش اسلوبی سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے ان لوگوں کی تعریف کے لیے چند الفاظ ادا کیے، جن کا ترجمہ مقامی زبان میں "دھن ہیں یہ لوگ” کیا گیا۔ دھن سنسکرت زبان میں مختلف معانی دیتا ہے، اور آج بھی "دھن شابا” کی ترکیب بطور شاباش اور تحسین کے پنجابی میں عام استعمال ہوتی ہے۔ چنانچہ اس روایت کے مطابق، اس علاقے کا نام دھن یا دھنی پڑ گیا۔

ب:
دوسری روایت کے مطابق، بابر بادشاہ کے عہد میں چکوال اور ڈھمن کے بیچ ایک بہت بڑی جھیل تھی جسے مقامی زبان میں "ڈھن” کہا جاتا تھا۔ بابر کے حکم پر کوہ جودہ میں گھوڑی گالا کے مقام پر ایک درہ کاٹا گیا، اور اس جھیل کا پانی دریائے جہلم میں ڈال کر اسے خشک کر دیا گیا۔ جب یہ علاقہ قابل آبادی ہو گیا، تو اسے علاقہ "ڈھن” کے نام سے پکارا جانے لگا، جو کثرت استعمال سے "ڈھن” کی بجائے "دھن” بن گیا۔ اس جھیل کا بقیہ چکوال کا سرکاری بن (تالاب) ہے، جو اب بند ہوچکا ہے اور اس پر ماڈل بازار بن گیا ہے۔

اس روایت کو مقامی بزرگوں اور علماء نے بھی تصدیق کی ہے۔ بابر کے دور میں اس جھیل کا پانی نہ صرف علاقے کے لیے اہم تھا بلکہ اس کے ارد گرد بسنے والی آبادی کے لیے بھی مرکزی ذریعہ آبپاشی تھا۔ بابر کے دور میں اس جھیل کی خشک ہونے کے بعد، یہاں کے لوگوں نے اپنی زمینوں کو نئے سرے سے آباد کیا اور اس کا نام "دھن” پڑ گیا۔ اس علاقے کے لوگ اپنی محنت اور جفاکشی کے باعث معروف ہوئے، اور بابر کے زمانے میں ان کی تعریف کے نتیجے میں یہ نام "دھن” یا "دھنی” مشہور ہوگیا۔

ج:
تیسری روایت کے مطابق، اس علاقے کا نام دھنیال راجپوتوں کے اصل وطن ہونے کی وجہ سے دھن یا دھنی پڑ گیا۔ رگوید کے مطابق، دھنیال ان چار پانچ دراوڑ سرداروں میں سے ایک تھا جنہوں نے آریوں سے شکست کھانے کے بعد ان کی اطاعت قبول کر لی اور ان کے زیرِ اثر یہاں رہائش اختیار کر لی۔ دھنیال اسی کی نسل سے ہیں۔

یہ روایت نہ صرف تاریخ کی گہرائیوں میں جڑیں رکھتی ہے بلکہ اس علاقے کی نسلی اور قبائلی تاریخ کو بھی واضح کرتی ہے۔ دھنیال راجپوتوں کی اس علاقے میں آمد اور آبادکاری نے یہاں کے نام کو دھنیال یا دھنی سے منسوب کر دیا۔ دھنیالوں کی شجاعت اور بہادری کے قصے اس علاقے میں عام ہیں، اور یہ روایت ان کے نام کی وجہ تسمیہ کو اور بھی مضبوط بناتی ہے۔ اس روایت کے مطابق، دھنیال راجپوتوں کی اس علاقے میں موجودگی نے اسے "دھنی” کا نام دیا، جو آج بھی اس علاقے کی شناخت کا حصہ ہے۔

د:
چوتھی روایت کے مطابق، دھنی نسل کے مویشی شروع سے ہی مشہور رہے ہیں۔ جہانگیر بادشاہ سے منسوب ایک دوہے میں ان کا ذکر یوں ملتا ہے:

"چھچھ ہزارے کنکاں چنگیاں
دھنی کھوب گائیں
سور سیکرتی گھوڑ بھلے
ہشتنگر کے دھائیں”

برونیجا مع اللغات (اردو) ہندی میں چونکہ مال مویشی کے گلوں کو "دھن” کہا جاتا ہے، اس لیے اس علاقے کا نام "دھن” پڑ گیا۔

یہ روایت اس علاقے کے قدیم زرعی اور مویشی پالنے کی روایات کی عکاسی کرتی ہے۔ یہاں کے مویشی، خاص طور پر گائیں، اپنی بہترین نسل اور دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے معروف تھیں۔ جہانگیر بادشاہ کے دور میں ان مویشیوں کی تعریف اور ان کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے اس علاقے کا نام "دھنی” یا "دھن” رکھ دیا گیا۔ یہ روایت علاقے کی زرعی اور مویشی پالنے کی ثقافت کو اجاگر کرتی ہے، جو آج بھی اس علاقے کی معیشت اور ثقافت کا اہم حصہ ہے۔

طبعی خدوخال

علاقہ دھنی طبعی لحاظ سے ایک سطح مرتفع ہے۔ یہ ایک بلند علاقے میں واقع ہے، جس کی عمومی ڈھلوان شمال مغرب کی طرف ہے، جبکہ بعض حصوں میں جنوب مشرق کی طرف بھی ہے۔ یہ علاقہ سلسلہ کوہستان نمک سے آنے والے پہاڑی برساتی نالوں کی وجہ سے کٹا پھٹا ہے۔

نالوں کے کناروں کے قریب واقع ہموار زمین زرخیزی کے لحاظ سے بہتر ہے، مگر بدقسمتی سے ایسے رقبے نہ زیادہ ہیں اور نہ وسیع۔ یہ زمین عموماً وہاں دکھائی دیتی ہے جہاں یہ نالے دریائے سواں میں جا ملتے ہیں۔ دوسری جگہوں پر ان پہاڑی نالوں کی گزرگاہیں بہت گہری ہوتی ہیں، جس کے باعث یہ نالے زرعی افادیت کے لحاظ سے زیادہ مفید نہیں ہیں۔ تاہم، جہاں کہیں ان کے کناروں کے قریب ہموار قطعے میسر ہیں، وہاں کنوئیں کھودے گئے ہیں جو آبنوشی اور کھیتوں کی آبپاشی کے کام آتے ہیں۔ زرخیزی کے لحاظ سے تقریباً ساری زمین یکساں ہے، مگر کسانوں کی محنت اور موافق موسمی حالات کی مدد سے وہ اپنی زمینوں سے کافی غلہ اور دیگر اجناس حاصل کر لیتے ہیں۔

چکوال اس علاقے کا مرکزی شہر ہے، جو 32.56 شمالی عرض بلد اور 42.54 مشرقی طول بلد کے درمیان واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی تقریباً 1550 فٹ ہے۔

اس علاقے کی زمین کی ڈھلوان کچھ اس قسم کی ہے کہ بغیر کسی پہاڑ یا پہاڑی کی مداخلت کے آدھے علاقے کا پانی دریائے جہلم میں گرتا ہے اور آدھے کا دریائے سندھ میں۔ یوں وہ خط جو دریائے جہلم کے طاس کو دریائے سندھ کے طاس سے جدا کرتا ہے، وہ موضع اوڈھروال سے گزرتا ہے اور موضع مذکورہ اس خط فاصل پر واقع ہے۔

اس علاقے کے مشہور کسوں (برساتی نالوں) کے نام بھناﺅ، سرولی، سوج، گاﺅج، دھراب اور نڑالہ ہیں۔ موخر الذکر دو نالوں کی گزرگاہوں میں چونکہ دائمی چشموں سے پانی آ کر مل جاتا ہے، اس واسطے ان میں تھوڑا بہت پانی سارا سال جاری رہتا ہے، جبکہ باقی نالے سارا سال خشک رہتے ہیں اور ان میں پانی صرف موسم برسات میں جاری ہوتا ہے۔ تاہم، زمین کی ساخت کی وجہ سے ان نالوں کی تہہ میں چند فٹ گہرا گڑھا کھودنے سے پانی نکل آتا ہے، جو کبھی کبھار انسانوں اور مویشیوں کو پلانے کے کام آ جاتا ہے۔

اس علاقے کے شمال میں دریائے سواں بہتا ہے، جو ضلع راولپنڈی سے ضلع جہلم کے اس علاقے میں داخل ہوتا ہے اور تقریباً حد فاصل کا کام دیتا ہے۔ یہ ایک بڑا دھوکے باز دریا ہے؛ ایک رات بالکل خشک ہوتا ہے، لیکن اگلی صبح اس میں اتنا پانی آ جاتا ہے کہ بغیر کسی سہارے کے اس پار نہیں جایا جا سکتا۔ اس کی گزرگاہ عموماً دلدلوں سے بھری ہوتی ہے۔ اس علاقے کے جو نالے موضع دلہہ کے قریب اس میں آ کر گرتے ہیں، ان کے نام کڑھائی، بھگناء اور سوج ہیں۔ یہ تمام نالے موضع دلہہ کے قریب دریائے سواں میں جا ملتے ہیں۔ ایک چوتھی ندی بھی اسی جگہ ضلع راولپنڈی سے آ کر ملتی ہے، اس لیے اس مقام کو پنجند یعنی پانچ ندیاں کہا جاتا ہے۔ ایک قدیم کھیت قریبی دیہات کے لوگوں کی اس علاقے کی خوبصورتی اور فائدہ رسانی کے متعلق ان کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتا ہے:

"کرڑ کڑاہی بھگنا، نیلہ والی دند
ادھا روپ ولایتی، ادھا روپ پنجند”

سلسلہ کوہستان نمک سے کئی چشمے ابلتے ہیں، لیکن ان میں میٹھے پانی کا ایک چشمہ کلرکہار کے مقام پر پایا جاتا ہے، جس سے وہاں کی کچھ زیر باغات زمین سیراب ہوسکتی ہیں۔ باقی پانی کلرکہار جھیل میں جا گرتا ہے، لیکن چونکہ جھیل کا پانی کلرو شور ہے، اس لیے یہ پانی زراعتی مقاصد کے لیے ناقابل استعمال ہے۔

یہ جھیل تقریباً گول ہے اور جب پانی سے پوری طرح بھری ہوتی ہے تو ایک کنارے سے دوسرے کنارے کا فاصلہ تقریباً ایک میل ہوتا ہے، جبکہ پانی کی گہرائی تقریباً چار فٹ کے قریب ہوتی ہے۔ محکمہ ارضیات کا خیال ہے کہ یا تو اس کے شور ہونے کی وجہ عمل ترسیب ہے یا نمکین چشمے اس کا باعث ہیں۔

مقامی لوگ ایک روایت سناتے ہیں کہ کبھی اس کا پانی میٹھا ہوتا تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عورتیں یہاں سے پانی گھڑوں میں بھر رہی تھیں۔ پاکپتن والے بابا فرید کا یہاں سے گزر ہوا اور انہوں نے پینے کے لئے تھوڑا پانی مانگا، لیکن عورتوں نے جواب دیا کہ "آپ کس طرح پی سکتے ہیں، یہ تو کھارا ہے۔” بابا فرید نے کہا کہ "اچھا، کھارا ہے تو کھارا ہی ہوگا۔” بابا صاحب چلے گئے، لیکن شام کو جب لوگ کھانا کھانے بیٹھے، تو تمام گھڑوں کا پانی شور ہو چکا تھا، اور جھیل بھی اسی دن سے کھاری ہوگئی۔

اس علاقے کا موسم گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں سخت سرد ہوتا ہے۔ آٹھ دس سال کے بعد کبھی برف بھی گرتی ہے۔ اوسطاً ربیع کے موسم میں 5.9 انچ اور خریف کے موسم میں 8.5 انچ بارش ہوتی ہے۔

لوگوں کی صحت عموماً اچھی ہوتی ہے۔ جلدی بیماریوں میں خارش اور ملیریا بخار عام ہیں۔

خلاصہ

علاقہ دھنی اپنی جغرافیائی ساخت، تاریخ، اور ثقافت کے لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں کے لوگ محنتی اور سخت جان ہیں، جو اپنی زمینوں سے موسمی حالات کی مدد سے بہترین پیداوار حاصل کرتے ہیں۔ اس علاقے کے مشہور نالے اور چشمے اس کی زراعتی افادیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جبکہ یہاں کی مشہور کلرکہار جھیل کی روایت بابا فرید گنج شکرؒ سے منسوب ہے، جو اس علاقے کی روحانی تاریخ کا حصہ ہے۔

یہ مضمون چکوال سے متعلق لکھی ہوئی تاریخی کتب خصوصاً ”دھن ملوکی “ سے ماخوذ(ترمیم کے ساتھ) بیان کیا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Seraphinite AcceleratorOptimized by Seraphinite Accelerator
Turns on site high speed to be attractive for people and search engines.