کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ضلع چکوال کے موضع نیلہ میں ایک راجہ حکومت کرتا تھا جس کا نام نیل تھا۔ راجہ نیل نے دریائے سواں کے
کنارے ایک بلند ٹیلے پر اپنا محل تعمیر کرانا چاہا، جہاں اب تھانے اور ڈاک بنگلہ کی عمارتیں واقع ہیں۔ فرہاد نامی ایک ماہر ترکھان نے جب محل مکمل کر دیا تو بادشاہ اس کے کام سے اس قدر خوش ہوا کہ اس نے فرہاد سے کہا، "مانگ، کیا مانگتا ہے؟”
فرہاد نے ادب سے جواب دیا، "جان کی امان پاوں تو عرض کروں کہ مجھے اپنی بیٹی کا رشتہ دے کر نوازا جائے۔” بادشاہ یہ سن کر سٹپٹا گیا، مگر اپنے وعدے کی پابندی کرتے ہوئے ہاں کر بیٹھا اور شادی کا دن بھی مقرر کر دیا۔
لیکن دل ہی دل میں بادشاہ کو یہ بات کھائے جارہی تھی کہ کہاں بادشاہ کی بیٹی اور کہاں ایک عام ترکھان۔ وزیروں اور مشیروں نے مشورہ دیا کہ وعدہ سے مکر جائیں، مگر بادشاہ نے غیرت کی وجہ سے انکار کر دیا۔ مشیروں نے تجویز دی کہ فرہاد کے سامنے ایک ایسی کڑی شرط رکھی جائے جو وہ پوری نہ کر سکے۔
بادشاہ نے فرہاد کو پیغام بھیجا، "ہم دلہن کو ہرنیوں کے نو من دودھ میں نہلانا چاہتے ہیں۔ اگر تم ہرنیوں کا نو من دودھ اکٹھا کر کے لے آؤ تو شہزادی تمہارے حوالے کر دی جائے گی۔”
فرہاد نے خوشی سے یہ شرط قبول کر لی۔ وہ دریائے سواں کے کنارے گھنے جنگلوں میں چلا گیا اور وہاں پر عبادت و ریاضت میں مصروف ہو گیا۔ اس نے عاجزی سے اللہ کے حضور دعائیں مانگیں جو بالآخر قبول ہوئیں اور خواجہ خضرؑ نے ظاہر ہو کر اسے ایک بانسری دی، "تم یہ بانسری بجاؤ، دنیا بھر کی ہرنیاں اپنے بچوں سمیت تمہارے پاس آ جائیں گی۔”
فرہاد نے بانسری بجائی اور چند لمحوں میں ہرنیوں کی قطاریں لگ گئیں۔ اس نے بادشاہ کو پیغام بھیجا کہ میں نے ہرنیاں اکٹھی کر لی ہیں۔ بادشاہ کو جب خبر ملی تو وہ حیران رہ گیا اور ساتھ ہی پریشان بھی ہو گیا۔ تحقیق کے لیے آدمی بھیجے جنہوں نے واپس آ کر تصدیق کی کہ واقعی فرہاد نے ہرنیاں اکٹھی کر رکھی ہیں۔
بادشاہ نے شرمندگی سے بچنے کے لیے ایک اور چال چلی۔ اس نے فرہاد کو کہا کہ اب شہزادی کی شرط ہے کہ پہاڑ کاٹ کر ایک نہر محل کے نیچے سے گزارو۔ فرہاد نے یہ شرط بھی قبول کر لی اور کشمیر کے پہاڑوں کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر اس نے پہاڑ کاٹنے کا کام شروع کیا۔
خواجہ خضرؑ ایک بار پھر ظاہر ہوئے اور اسے ایک لکڑی دی، "اس لکڑی سے لکیر کھینچتے جاؤ، دریا کا پانی خود بخود تمہارے پیچھے آتا جائے گا۔” فرہاد نے یہ کر دکھایا اور پانی کے ساتھ واپس نیلہ کی طرف چل پڑا۔
فرہاد تھکاوٹ سے بے حال ہو کر نیلہ سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا اور پانی وہیں رک گیا۔ بادشاہ نے محل کی چھت سے پانی دیکھا اور تحقیق کے لیے آدمی بھیجے۔ فرہاد کے قریب پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ فرہاد پانی کے ساتھ سو رہا ہے۔ بادشاہ نے وزیروں کو ڈانٹا اور شرم دلائی۔
وزیروں نے ایک کٹنی کی خدمات حاصل کیں جس نے فرہاد کو شہزادی کی موت کی جھوٹی خبر دی۔ اس خبر پر فرہاد کا دل ٹوٹ گیا اور وہ دنیا سے کوچ کر گیا۔ کٹنی نے خوش ہو کر بادشاہ کو خبر دی اور انعام حاصل کیا۔
اسی دوران پانی محل کے سامنے آ کر گرداب میں چکر کاٹنے لگا۔ محل کی چھت سے دیکھا تو فرہاد کی لاش تیر رہی تھی۔ یہ دیکھ کر شہزادی شیریں نے بھی بھنور میں چھلانگ لگا دی اور دونوں کی لاشیں ایک دوسرے کے بازوؤں میں تھیں۔ انہیں اسی حالت میں نلہ پٹھارن اور دریائے سواں کے سنگم پر دفن کر دیا گیا۔ یہ قبریں آج بھی وہاں موجود ہیں اور لوگ وہاں اپنی محبت کی کامیابی کے لیے دعائیں کرنے جاتے ہیں۔