شہید میجر عدنان اسلم: بہادری، قربانی اور لازوال یادیں

Spread the love

شہید میجر عدنان اسلم: بہادری، قربانی اور لازوال یادیں

بنوں کا سانحہ اور ایک بہادر افسر

دو ستمبر 2025 کو خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں ایک فوجی مرکز پر ہونے والا حملہ پاکستان کی عسکری تاریخ میں ایک اور کڑا امتحان تھا۔ یہ واقعہ محض ایک حملہ نہیں تھا بلکہ اس نے قوم کو ایک ایسے جوان کی داستانِ شجاعت دی جس کا ذکر آنے والی نسلیں بھی کریں گی۔ فوج کے سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کے میجر عدنان اسلم نے نہ صرف اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر دشمن کا مقابلہ کیا بلکہ اپنے ساتھیوں کی حفاظت کے لیے اپنی زندگی تک قربان کر دی۔ وائرل ویڈیو اور قوم کا ردعمل

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں میجر عدنان کو اپنے زخمی ساتھی کو بچاتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہ مناظر دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار ہوگئی۔ عوامی سطح پر ان کے لیے بے پناہ دعائیں ہوئیں اور ملک بھر سے آوازیں اٹھنے لگیں کہ میجر عدنان کو پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز "نشانِ حیدر” سے نوازا جائے۔

میجر عدنان اسلم شہید بہادری پاکستان

حملے کی تفصیل اور جوانوں کی بہادری

فرنٹیئر کانسٹیبلری کے مرکز کے سربراہ ذوالفقار خان کے مطابق حملہ اچانک اور نہایت سنگین تھا، لیکن جوانوں نے بھرپور مقابلہ کیا اور عام شہریوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس دوران پانچ اہلکار جامِ شہ

میجر عدنان کی جانبازی

عینی شاہدین اور قریبی رشتہ داروں کے مطابق میجر عدنان پہلے ہی دو دہشت گردوں کو انجام تک پہنچا چکے تھے جب ایک دہشت گرد کی گولی ان کی ٹانگ میں لگی۔ زخمی ہونے کے باوجود انھوں نے اپنے ساتھی کو بچانے کے لیے خود کو ڈھال بنا لیا۔ بار بار دشمن کی گولیوں کا نشانہ بننے کے باوجود انھوں نے نہ صرف فائر کا جواب دیا بلکہ اپنے ساتھی کو ہر ممکن تحفظ فراہم کیا۔ اسی دوران دہشت گرد کے پاس موجود ہینڈ گرنیڈ اور خودکش جیکٹ پھٹنے سے ایک زور دار دھماکہ ہوا جس میں میجر عدنان شدید زخمی ہوگئے۔

سات دن کی جدوجہد

میجر عدنان کو پہلے پشاور اور پھر راولپنڈی منتقل کیا گیا جہاں وہ تقریباً ایک ہفتہ زندگی اور موت کی کشمکش میں رہے۔ ان کے دوستوں اور رشتہ داروں نے خون کے چالیس پائنٹس تک کا انتظام کیا۔ ڈاکٹروں نے جان بچانے کے لیے ان کی ٹانگ کاٹنے کی تجویز دی مگر یہ فیصلہ نہایت مشکل تھا۔ آخرکار نو ستمبر کو وہ اپنی جان وطن پر قربان کر کے امر ہو گئے۔

بچپن، تربیت اور ایڈونچر سے محبت

vمیجر عدنان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جس نے ہمیشہ بہادری اور ایثار کو ترجیح دی۔ ان کا خاندان کئی دہائیوں پہلے سوات سے آ کر راولپنڈی میں آباد ہوا۔ بچپن ہی سے وہ کھیلوں اور ایڈونچر کے شوقین تھے۔ ان کے ماموں فرمان اور عمران احمد خود ماہر ایتھلیٹ اور مارشل آرٹ کے استاد تھے، جن سے عدنان نے تیراکی، کراٹے، باکسنگ اور پیرا گلائیڈنگ کی تربیت حاصل کی۔ یہی صلاحیتیں آگے چل کر ان کی عسکری زندگی میں ان کے ساتھ رہیں۔

اعلیٰ عسکری تعلیم اور شاندار کیریئر

عدنان اسلم نے 135 لانگ کورس کے تحت کاکول اکیڈمی سے تربیت حاصل کی۔ بعد ازاں انھوں نے برطانیہ کی مشہور رائل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ سے بھی کورس کیا جو دنیا کے ممتاز عسکری اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کی شاندار کارکردگی اور قائدانہ صلاحیتوں نے انھیں ایس ایس جی کا حصہ بنایا۔

خاندان اور ادھورے خواب

شہید میجر عدنان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ اور دو ننھے بچے شامل ہیں۔ بیٹا صرف اڑھائی سال کا ہے جبکہ بیٹی چھ ماہ کی ہے جسے وہ اپنی گود میں اٹھانے کے منتظر تھے۔ چھٹی کے بعد وہ اپنی فیملی کے ساتھ ایبٹ آباد جانے کا پروگرام بنا رہے تھے لیکن ان کے یہ خواب ادھورے رہ گئے۔ ان کے والدین نے بھی بیٹے کی شہادت کو صبر و حوصلے کے ساتھ قبول کیا۔ یہ وہی والدہ ہیں جنہوں نے کئی سال پہلے اپنے ایک اور بیٹے کو کھویا تھا اور اب ایک اور قربانی دی۔

میجر عدنان اسلم شہید بہادری پر پاکستان قومی سطح پر خراجِ تحسین

نو ستمبر کو راولپنڈی میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر، وزیراعظم شہباز شریف، تمام کور کمانڈرز، وفاقی وزراء اور بڑی تعداد میں شہریوں اور رشتہ داروں نے شرکت کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ میجر عدنان اسلم کی قربانی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور یہ کہ وہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مثال ہیں۔

کرنل (ر) محمد سعید کا بیان

چکوال کے کرنل (ر) محمد سعید نے میجر عدنان کی شہادت پر گہری ہمدردی کا اظہار کیا اور جنازے میں شرکت کے دوران لواحقین سے تعزیت کی۔ کرنل سعید نے کہا:

"میجر عدنان اسلم نے لازوال بہادری کا مظاہرہ کیا — انہوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنے ساتھیوں کی حفاظت کو فوقیت دی۔ ایسے جوان قوم کے لیے باعثِ فخر ہیں۔ میری حکومتِ وقت سے یہ پرزور درخواست ہے کہ میجر عدنان اسلم جیسی لازوال قربانی کے بدلے انہیں اعلیٰ ترین عسکری اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا جائے۔ یہ اعزاز اُن کی جرأت اور وطن کے لیے دی گئی قربانی کا مناسب اعتراف ہوگا۔ میں شہید کے اہلِ خانہ کے دکھ میں برابر کا شریک ہوں اور حکومت سے یہ بھی اپیل کرتا ہوں کہ لواحقین کی ہر ممکن مدد کی جائے۔”

کرنل سعید نے مزید کہا کہ قوم کو ایسے بہادر سپوتوں کو یاد رکھنا چاہیے اور ریاست کو چاہیے کہ وہ ان کی بہادری کو رسمی طور پر تسلیم کرے تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان مثالوں سے سیکھ سکیں۔

further report and info

شہادت کا پیغام

میجر عدنان اسلم کی قربانی اس بات کی یاد دہانی ہے کہ یہ ملک بہادروں کے خون سے قائم ہے۔ ان کی شہادت صرف ایک فرد کی قربانی نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے ایک سبق ہے کہ وطن کی حفاظت سب سے بڑھ کر ہے۔ ان کا کردار آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ رہے گا اور پاکستان ان جیسے بہادروں کی بدولت ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے