جہاد افغانستان کا امام ، کرنل امام شہید / المعروف سلطان امیر تارڑ کا سوانحی خاکہ
تحریر: کرنل(ر)محمد سفیر تارڑ
کسے معلوم تھا کہ چکوال کے قریب ایک غیر معروف گاﺅں چتال میں ایک متوسط زمیندار چوہدری غلام علی تارڑ کے ہاں جنم لینے والا بچہ آنے والے وقت میں اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث دنیائے حرب و ضرب میں تہلکہ مچا کے رکھ دے گا۔ اپنے وقت کی سپر پاور سوویت یونین کی شکست و ریخت کا سبب بنے گا، اور جہاد افغانستان میں ایک افسانوی کردار کا روپ دھارے گا۔ اپریل 1944 میں جنم لینے والے اس بچے کا نام ماں باپ نے سلطان امیر تارڑ رکھا جب کہ یہ مرد مجاہد دنیائے عالم میں کرنل امام کے آفاقی نام سے ممتاز ہوا۔
دل تو نہیں مانتا اور لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، مگر شواہد یہی بتا رہے ہیں کہ کرنل امام اب اس دنیا میں موجود نہیں رہے۔ میں ابھی چھ ماہ کا تھا اور امام تقریباً تین سال کے جب ہمارے والد ماجد کا سایہ ہمارے سروں سے اٹھ گیا اور ہم دونوں بھائی اپنی ماں کے سایہ عافیت میں دوستوں کی طرح پلے بڑھے اور جوان ہوئے۔ غیر معمولی صفات ، صلاحیت اور شخصیت کے حامل کرنل امام بچپن ہی سے منفرد ، ممتاز ،نمازی پرہیز گار اور تہجد گزار تھے۔ قضا تو درکنار وہ باجماعت نماز کے سختی سے پابند تھے۔ پاکستان آرمی کے لئے نرسری کا کردار ادا کرنے والے ہمارے علاقے میں وہ پہلے فرد تھے جنہوں نے فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ جون 1966ءمیں پاکستان ملٹری اکیڈیمی سے پاس آﺅٹ ہوئے تو پاکستان آرمی کی ایک مایہ ناز بٹالین پندرہ فرنٹیئر فورس رجمنٹ کو بحثیت سیکنڈ لیفٹیننٹ لاہور میں جائن کیا۔ دل میں کمانڈو بننے کی امنگ لئے یہیں سے وہ ایس ایس جی میں ٹریننگ کے لئے منتخب کر لئے گئے۔ غیر معمولی جسمانی صلاحیتوں کے حامل کرنل امام نے پی ایم اے اور ایس ایس جی میں ٹریننگ کے دوران اپنی فزیکل فٹنس میں وہ نکھار پیدا کیا کہ اپنے ساتھیوں میں منفرد ہوئے۔ وہ زمین پر نشان لگا کر جہاز سے پیرا جمپ کرتے اور کمال مہارت سے اسی جگہ پر لینڈ کرتے۔ وہ تمام فضائی حدود اور پابندیوں کو بالائے طاق رکھ کر ایسا فری فال کرنا چاہتے تھے، کہ دنیا میں ایک نیا ریکارڈ قائم ہو۔ 1977 ءمیں آرمڈ فورسز ویک کی تقریبات کے دوران فورٹرس سٹیڈیم لاہور میں پیراجمپ کے مظاہروں میں کئی دفعہ غیر معمولی خطرہ مول لے کر زمین کے اتنا قریب آکر پیراشوٹ کھولا کہ تماشائیوں کی چیخیں نکل گئیں۔
1971 کی جنگ میں بحثیت کیپٹن انہوں نے مغربی پاکستان کے مختلف محاذوں پر دشمن کے خلاف دلیرانہ کمانڈو ایکشنز میں حصہ لیا۔ اس جنگ میں ذلت آمیز شکست پر وہ بہت دل گرفتہ تھے اور دشمن سے بدلہ لینے کے لئے موقع کی دعائیں مانگتے رہتے تھے۔ سقوط ڈھاکہ اور اس کے نتیجے میں 90 ہزار جنگی قیدیوں کا معاملہ ایک خوددار اور غیرت مند مجاہد کے لئے سوہان روح بنا ہوا تھا۔ ان کربناک لمحات میں انہوں نے اپنی فوجی ہائی کمان کو ایک پلان پیش کیا۔ جس کی تفصیلات ان کے ایک قابل اعتماد ساتھی کیپن عالم شہید نے بہت بعد میں مجھے اس وقت بتائیں۔ جب ان کے مطابق یہ سیکرٹ، سیکرٹ نہیں رہا تھا۔ پلان کے مطابق انہوں نے کیپٹن عالم سمیت تین جانثار ساتھیوں پر مشتمل ایک ٹیم کی تشکیل کی تجویز دی جس نے پروگرام کے مطابق بھارت کی اعلیٰ ترین قیادت کی متعین شخصیت کو اغواءکر کے پاکستان لانا تھا، تاکہ حکومت پاکستان اس کے بدلے اپنے جنگی قیدی باعزت طریقے سے رہا کراسکے۔ پلان میں انہوں نے تجویز کیا کہ اگر یہ منصوبہ ناکام ہو جائے تو میں ہر قسم کے نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہوں۔ یہ تھا ایک مرد مومن کا اپنے ملک و قوم کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کردینے کا عزم۔
1973ءمیں جب امریکہ کورس کے لئے جانے لگے تو عام فوجی روایات کے بالکل برعکس اپنے ساتھ ایک خوبصورت شیروانی سلوا کر لے گئے۔ انہوں نے وہاں سے مجھے ایک خط میں فرمائش کی کہ میں انہیں قائد اعظم اور علامہ اقبال کی خوبصورت اور منفرد انداز میں تصاویر بھیجوں، جو انہوں نے عمدہ فریم میں وہاں اپنے کمرے میں آویزاں کی ہوئی تھیں۔ امریکہ کے فورس براگ ملٹری کالج سے گریجویشن کے بعد وطن واپسی سے پہلے انہوں نے عمرہ کیا اور روضہ رسول پر حاضری کے دوران سنت رسول کی پیروی میں داڑھی رکھ لینے کا عزم کیا۔ وطن واپسی پر انہوں نے پشاور میں پیرا ٹریننگ سکول کے کمانڈنگ آفیسر کا چارج دوبارہ سنبھال لیا ، جہاں وہ پیراٹروپرز کی ٹریننگ میں مصروف ہوگئے۔ یہی وہ دور ہے جب انہوں نے حکومت پاکستان کی ہدایت پر افغان مزاحمت کاروں کے ایک گروپ کی خصوصی ٹریننگ کا اہتمام بھی کیا۔
1977 میں ان کی خدمات واپس ان کی بٹالین 15 ایف ایف رجمنٹ کے حوالے کردی گئیں، جہاں مختلف پوزیشنوں پر فرائض سرانجام دیتے ہوئے 1980 ءمیں انہوں نے بٹالین کمانڈر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ ہر کام کو پرفیکشن کے ساتھ کام کرنے والے کرنل امام کی کمانڈ کا یہ دور بٹالین کی تاریخ کے پیشہ ورانہ عسکری مہارت کی معراج کا دور ہے۔ پاکستان آرمی کے ٹریننگ ،ہتھیاروں کے استعمال اور کھیلوں کے مقابلوں میں بٹالین نے اپنی دھاک بٹھا رکھی تھی۔ مجموعی طورپر اعلیٰ کارکردگی کی بناءپر بٹالین کو 1983 ءمیں 23 مارچ کی مسلح افواج کی پاکستان ڈے پریڈ میں فرنٹیئر فورس گروپ کی نمائندگی کے لئے منتخب کر لیا گیا۔ 23 مارچ سے دو دن قبل پریڈ میں شرکت کرنے والے کمانڈنگ افسروں کے اعزاز میں آرمی ایوی ایشن راولپنڈی میں دوپہر کے کھانے کا اہتمام کیا گیا۔ صدر مملکت جنرل محمد ضیاءالحق تقریب میں تشریف لائے تو خوبصورت وردیوں میں ملبوس تمام کمانڈنگ افسروں سے فرداً فرداً مصافحہ کیا۔ کرنل امام ؒ سے ہاتھ ملایا تو نظریں ان کی وجیہہ سراپے میں کھب گئیں۔ وہیں رک گئے۔ دراز قد، سرخ و سفید نورانی چہرے پر سجی خوبصورت داڑھی، چھاتی پر ایس ایس جی ونگ، تمغوں کی لمبی قطار اور سمارٹ ٹرن آﺅٹ کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ پوچھا بٹالین کمانڈ کئے کتنا عرصہ ہو گیا ہے؟
ریس کورس گراﺅنڈ راولپنڈی میں 23 مارچ کو منعقدہ یوم پاکستان میں کرنل امام ؒ کی قیادت میں 15 ایف ایف کی کارکردگی اتنی شاندار تھی کہ مارچنگ کالمز میں اول پوزیشن حاصل کی۔ 24 مارچ کو اسی گراﺅنڈ میں پریڈ میں شرکت کرنے والے دستوں کے لئے تقسیم انعامات کی تقریب اور ان کے اعزاز میں روایتی بڑے کھانے کا اہتمام تھا۔ مہمان خصوصی جنرل محمد ضیاءالحق تشریف لائے تو جنرل کی یونیفارم میں ان کی بیٹی زین ضیاءبھی ان کے ہمراہ تھیں۔ ایک پروقار تقریب میں کرنل امام نے مہمان خصوصی سے ٹرافی وصول کی۔ جنرل ضیاءبڑے کھانے میں ترتیب سے لگی یونٹوں میں پہلے نمبر پر 15 ایف ایف میں پہنچے تو کرنل امام نے سیکنڈ لیفٹیینٹ کے رینک میں ملبوس اپنے پانچ سالہ بیٹے نعمان کے ہمراہ ان کا استقبال کیا۔ جنرل ضیاءنے نعمان کو پیار کیا، شاباشی دی اور کرنل امام سے مخاطب ہوئے۔
"WELL DONE, IT WAS A MARVELOUS SHOW. KEEP IT UP”
کرنل امام کو ایسے لگا جیسے اب کوئی نئی اہم ذمہ داری ان کی راہ دیکھ رہی ہے۔ پریڈ سے فراغت کے بعد یونٹ کو لیکر واپس پشاور پہنچے تو کچھ دنوں بعد انہیں آئی ایس آئی میں رپورٹ کرنے کا آرڈر مل گیا۔ جہاں افغان سیل میں ان کی خدمات کا ایک نہایت اہم ، ہنگامہ خیز اور تاریخی دور شروع ہوا۔ اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی انہوں نے افغان مجاہدین کی گوریلا تربیت کا ایک مربوط پروگرام تشکیل دیا۔ اس مرد قلندر کے مجاہدانہ جذبے عزم صمیم اور سرفروشانہ کردار کے باعث جہادی قوتوں کو ایک نیا عزم اور نیا حوصلہ ملا۔ ایک سچا مسلمان ایک عظیم مجاہد اور اعلیٰ صفات کا حامل ایک بے لوث کمانڈر یہیں سے کرنل امام کے آفاقی نام سے مشہور ہوا۔ اپنے وقت کی سپرپاور سوویت یونین کو افغانستان کے صحراﺅں اور پہاڑوں میں تھکا تھکا کہ اتنا مارا کہ اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہوا۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی آنکھوں میں تو کرنل امام پہلے ہی کھٹکتا تھا۔ یہی وہ دور ہے جب وہ سوویت یونین کی ہٹ لسٹ پر آیا رشین کے جی بی نے اس کی سر کی قیمت مقرر کی اور یہی وہ دور ہے جب قرون اولیٰ کے مسلمان کی صفات سے آراستہ نہ بکنے اور نہ جھکنے والا سچے اور اجلے کردار کا مالک یہ مجاہد امریکن سی آئی اے کی نظروں میں اور اس کے نشانے پر بھی آگیا۔ جدید دنیا کی گوریلا جنگوں کی تاریخ میں کرنل امام ایک مینارہ نور ہیں۔ وہ ملت اسلامیہ کے ایک قابل فخر سپوت ہیں جو اس کی سربلندی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔
ء 1995میں کرنل امام کو افغانستان کے صوبے ہرات میں پاکستان کا قونصل جنرل مقرر کر دیا گیا۔ جہاں وہ پاکستان اور افغانستان کی آزادی ، سلامتی اور سربلندی کے لئے اور دونوں برادر اسلامی ملکوں کے درمیان دوستی بھائی چارے اور خیر سگالی کے طور پر کام کرتے رہے۔ 9/11 کے بعد امریکہ نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو کرنل امام وہاں ہی موجود تھے۔ ان دنوں میں ہر روز ٹیلی فون پر ان سے رابطہ کرتا۔ اپنی تشویش کا اظہار کرتا اور انہیں واپس آنے کا کہتا تو وہ مسکرا کر کہتے۔ فکر مت کرو میرا دوست ”اللہ“ میرے ساتھ ہے۔ امریکی حملے کے بعد وہ واحد پاکستانی آفیسر تھے جو سب سے آخر میں پاکستان واپس آئے۔ واپس آنے کے بعد وہ بہت تھوڑے عرصے کے لئے فارن آفس سے منسلک رہے۔ پرویز مشرف گورنمنٹ کی 9/11 کے بعد کی پالیسیوں پر شدید تحفظات کے باعث جلد ہی سروس سے علیحدہ ہوگئے۔
کرنل امام کی تمام زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ ریٹائرمنٹ یا آرام نام کی کسی چیز کا ان کے ہاں وجود نہیں تھا۔ سروس سے علیحدگی کے بعد انہوں نے اسلام آباد میں یتیم اور نادار بچوں کی کفالت کے لئے قائم سعودی عرب کی ایک این جی او کے لئے اپنی خدمات وقف کر دیں۔ اس کے بعد چکوال کے قریب لیز پر زمین لے کر فارمنگ شروع کی اور سماجی کاموں سے اگر کچھ لمحات ملتے تو میڈیا کے ذریعے اپنا پیغام عوام تک پہنچاتے۔ افغان مجاہدین سے جن کے ساتھ انہوں نے لمبا عرصہ کام کیا۔ بے پناہ محبت کرتے تھے۔ وہ ان کے لئے دعائیں کرتے اور ان کی کامیابیوں پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے۔ وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں فاٹا وغیرہ میں کارفرما مزاحمت کاروں کو طالبان تسلیم نہیں کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان لوگوں میں پاکستان دشمن طاقتیں بھی گھس گئی ہیں۔ وہ امریکی پالیسیوں کو پاکستان کے قومی مفادات کے خلاف سمجھتے ہوئے ان پر کڑی تنقید کرتے۔ ڈرون حملوں پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے اور وطن عزیز میں خود کش دھماکوں کی شدید مذمت کرتے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جب تک امریکہ افغانستان سے نہیں نکلتا۔ اس وقت تک اس خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ وہ اس بات پر مکمل یقین رکھتے تھے کہ امریکہ بھی افغانستان میں روس کی طرح منہ کی کھائے گا۔
زاہد و عابد کرنل امام ؒ ایک باعمل مسلمان کی عملی تصویر تھے۔ میں انہیں بستر پر بہت کم دیکھا۔ رات کے پچھلے پہروں میں میں نے انہیں اکثر مصلے پر قیام و سجود میں گڑگڑا ، گڑگڑا کر اپنے اللہ سے دعائیں مانگتے دیکھا۔ روتے روتے ہچکی بندھ جاتی اور اپنے دوست (اللہ)سے راز و نیاز کی باتیں کرنے لگ جاتے۔
کرنل امام سچے عاشق رسول تھے۔ رسول اکرم کے متعلق آہانت آمیز خاکوں کی اشاعت پر ردعمل کے نتیجے میں شہادت پانے والے نوجوان عامر نذیر چیمہ کی قسمت پر رشک کرتے۔ جب شہید کی میت اسلام آباد لائی جا رہی تھی تو انہوں نے مجھے اس تاکید کے ساتھ اطلاع دی کہ میں شہید کے جنازے میں شرکت کروں۔ 12 دسمبر 2009 ءکو انہوں نے مجھے ایس ایم ایس کیا جو ابھی تک میرے ریکارڈ میں موجود ہے۔ ایس ایم ایس میں انہوں نے ایک ویب سائٹ کا ذکر کیا جس پر دنیا کے سب سے زیادہ محبوب انسان کے بارے میں ایک ریسرچ جاری ہے۔ رسول اکرم سمیت دس نام لسٹ میں شامل ہیں اور تاحال پیغمبر اسلام کا نام لسٹ میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں انٹرنیٹ پر اپنا ووٹ دوں اور اپنے سب دوستوں کو بھی کہوں تاکہ دنیا کے تمام لوگوں پر واضح ہو کہ اللہ کے آخری پیغمبر مسلمانوں کو کتنے محبوب ہیں۔
شہادت کرنل امام کی بہت بڑی آرزو تھی۔ ان کے دوست بریگیڈیئر علی اس بات کے گواہ ہیں کہ کرنل امام نے کس طرح کانپتے ہاتھوں سے غلاف کعبہ تھامے گلوگیر لہجے اور رقت آمیز لمحات میں اپنے لئے شہادت کی دعا مانگی تھی۔ خطے میں امن اور افغانستان کی آزادی انہیں بے حد محبوب تھے۔ کرنل امام جناب خالد خواجہ اور برطانوی صحافی اسد قریشی کے ہمراہ 24 مارچ 2010 ءکو ایک اہم مشن پر راولپنڈی سے روانہ ہوئے اور 26 مارچ کو بنوں سے شمالی وزیرستان جاتے ہوئے اغواءکر لئے گئے، کرنل امام مارچ سے ستمبر تک ایک گروپ کے قبضے میں رہے جب کہ 30 ستمبر کو ایک دوسرے گروپ نے انہیں اپنے قبضے میں لے لیا۔ اسیری کے اس عرصے میں مجھے کرنل امام کے بارے میں کئی خواب آئے۔ آخری خواب کا منظر نامہ ہمارے گاﺅں کی فاروقی جامع مسجد ہے۔ جس کے وسیع و عریض ہال کے درودیوار پر قرآنی آیات سے مزین کرسٹل کے بے شمار بلاکس آویزاں ہیں۔ جو برقی قمقموں کی دودھیا لائٹس سے جگمگا رہے ہیں۔ جیسے رنگ و نور کی بارش۔ مسجد کے شمالی دروازے کے قریب قرآن پاک رکھنے والی رحل پڑی ہے۔ جس پر ایک ہینڈبیگ رکھا ہے جو مجھے ایسے لگاکہ کرنل امام کا رہ گیا ہے۔ اللہ کی حکمت کہ کرنل امام نے گزشتہ تقریباً گیارہ ماہ بڑے کٹھن اور کڑے امتحان میں گزارے۔ 19 فروری کو تمام چینلز پر چلنے والی ویڈیو سے ان کی شہادت کی تصدیق ہوگئی۔ ہم ان کی سلامتی اور زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے جب کہ اللہ نے ان کی شہادت کی آرزو پوری کر دی۔ (کرنل امام کو اللہ نے چھ بیٹیوں اور دو بیٹوں سے نوازا۔ زندگی کے محاذ سے رخصتی پر بھی انہوں نے اپنی حوصلہ مند بیگم کی ان ذمہ داریوں میں مزید اضافہ کر دیا۔ مجھے اس امر کا اعتراف ہے کہ بہادر کرنل امام کے بہادر بچوں اور بیگم نے ان کی شہادت پر جس ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ اس ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ میں اپنے عظیم بھائی اور میری بیٹی سعدیہ اور بیٹا اسامہ اپنے شفیق بڑے ابو کے کھونے پر نہیں کرسکے۔ ویسے تو چھ ماہ کی قلیل عمر میں میرے والد ماجد کا سایہ میرے سر سے اٹھ گیا تھا مگر میں یتیم اب ہوا ہوں۔ جب میرا محسن میرا ہمدم مجھے اس مقام تک پہنچانے والا مجھ سے چھین لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مرد حق کے درجات بلند فرمائیں۔ (آمین)