تحریر: محمد اسامہ تارڑ
یہ 1947 ءہے۔ تحریک پاکستان جوبن پر ہے، چکوال شہر کے شرقی شہر کے شرقی جانب واقع چتال، نام کے ایک گاﺅں میں ہر روز ایک جلوس ترتیب دیا جاتا ہے، جو گلیوں کے چکر کاٹتا ، پاکستان زندہ باد، وقت کا فرمان ٹل سکتا نہیں ۔ موت ٹل سکتی ہے پاکستان ٹل سکتا نہیں، کے نعرے سر کرتا آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہ تحریک ، یہ جلوس ہر روز کا معمول ہے۔ جس کے روح رواں گاﺅں کے ایک سپوت چوہدری غلام علی تارڑ ہیں۔ ضلع جہلم کی اس وقت کی دور دراز کی ایک پسماندہ تحصیل چکوال کے موضع چتال سمیت دوسرے پس ماندہ ترین دیہات تک مسلم لیگ کا پیغام کیسے پہنچا؟ یوم آزادی کے موقع پر ہم تحریک پاکستان کے ان مجاہدوں کی یاد تازہ کرتے ہیں، آزادی کے حصول کے لئے جن کی انتھک محنت اور قربانیاں تاریخ کا گم گشتہ باب سہی مگر نسل در نسل سینوں میں آج بھی زندہ ہیں۔ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن غلام علی تارڑ نے چکوال سے جہلم کی طرف نکلتی سڑک کے تقریباً ساتویں میل پر بائیں جانب مڑے والے راستے پر واقع موضع چتال میں جنم لیا۔ جسے تاریخ نے ایک نئی پہچان دے دی ہے اور لوگ اب اسے ”گاﺅں کرنل امام“ کے نام سے جانتے ہیں۔ اپنی تعلیم کے ابھی ابتدائی مراحل ہی میں تھے کہ جنگ عظیم اول چھڑ گئی اور وہ علاقے کی روایات کے عین مطابق اوائل عمری میں ہی لام پر چلے گئے۔ وہ اس جنگ میں زخمی ہوئے اور نتیجتاً بہت تھوڑی سی سروس میں ہی میڈیکل بورڈ کی پنشن پر گھر آگئے۔
وسیع حلقہ اثر رکھنے والے صاحب حکمت و دانش غلام علی تارڑ نے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد سماجی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لینا شروع کیا اور سابق فوجی ہونے کی حیثیت سے علاقے میں ویلفیئر آفیسر کے طور پر کام کرنے لگے۔ برصغیر کے ممتاز سیاسی و سماجی رہنما اور ہندوستان کی کونسل آف سٹیٹ کے رکن میاں عطاءاللہ تارڑ آف کولوتارڑ اور چکوال کی ایک قد آور شخصیت قاضی غلام احمد ایڈووکیٹ کے ساتھ ان کا بہت ہی قریبی تعلق تھا اور علاقے کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں وہ ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ چکوال میں پہلے مسلمان وکیل ، حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کے مرید خاص ، علاقے میں مسلم لیگ کو منظم کرنے والے، مسلم لیگ چکوال کے بانی صدر قاضی غلام احمد ایڈووکیٹ کے ساتھ ایک مضبوط رابطے کے تحت وہ مسلم لیگ کا پیغام دیہات میں بڑے منظم انداز میں پہنچاتے اور اپنے دوست احباب کے ہمراہ چکوال شہر اور گردو نواح میں مسلم لیگ کے جلسے جلوسوں میں شرکت کرتے۔ بدبخت گستاخ رسول ڈاکٹر رام گھوپال کو ضلع حصار میں واصل جہنم کرنے والے عاشق رسول غازی مرید حسینؒ شہید کی میت جب 24 ستمبر 1937 ءکو جہلم سے جلوس کی شکل میں موضلع چتال کے علاقے میں پہنچی تو غلام علی تارڑ نے اپنی اہلیہ محترمہ اور اہلیان علاقہ کے مردو زن کی کثیر تعداد کے ہمراہ چکوال، جہلم روڈ پر شہید کا استقبال کیا، جلوس کے ساتھ شہید کے گاﺅں بھلہ میں نماز جنازہ میں شرکت کی اور شہید کی زیارت کی۔
تحریک پاکستان کے مقاصد کے حصول کے لئے جہاندیدہ غلام علی تارڑ نے مسلم نیشنل گارڈز کے نام سے ایک فورس تیار کی۔ جس کا مقصد مسلم لیگی رہنماﺅں کی آمد پر، مسلم لیگی جلسے جلوسوں کو اور ضرورت پڑنے پر مسلمان آبادی کو سیکورٹی فراہم کرنا تھا۔ سابق فوجی ہوے کے ناطے وہ یونیفارم پہنے ، چھاتی پر جنگی تغموں کی لمبی قطار سجائے رضاکاروں کو موضع چتال اور چکرال کے درمیان برساتی نالے کے میدانی حصے پر پریڈ کراتے اور فوجی تربیت دیتے۔
1946 ءمیں جب آل انڈیا مسلم لیگ نے ملک خضر حیات ٹوانہ وزیر اعظم پنجاب کے خلاف ایجی ٹیشن کی کال دی تو غلام علی تارڑ نہ صرف چکوال شہر اور ملک کے دوسرے حصوں میں ہونے والے جلسے جلوسوں میں شرکت کرتے بلکہ ہر روز شام کو موضع چتال میں ملک خضر حیات ٹوانہ کا پتلا اور علامتی جنازہ اٹھائے ایک جلوس ترتیب دیا جاتا ۔ یہ جلوس گاﺅں کی گلیوں کے چکر کاٹتا ہر گھر کے سامنے چند لمحوں کے لئے رکتا، پاکستان زندہ باد، خضرو مردہ باد، کون مویا خضرو مویا، کس دا جنازہ خضرو دا، وقت کا فرمان ٹل سکتا نہیں۔ موت ٹل سکتی ہے پاکستان ٹل سکتا نہیں۔ کے نعرے لگاتا آگے بڑھتا ہوا دوسرے دیہات تک جاتا۔ پتلا بنانے کی یہ ذمہ داری چوہدری فضل المعروف پھجو تروڈ کی تھی جب کہ تحریک پاکستان کا ایک سرگرم مگر گمنام کارکن فقیر محمد المعروف فقیرو مصلی پتلے کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتا اپنے منفرد انداز میں مخصوص نعرے لگاتا سب کی توجہ کا مرکز ہوتا۔موضع چتال سے ہر روز ترتیب دیئے جانے والے تحریک آزادی کے اس جلوس کی دھوم دور دور تک تھی۔ چتال کا فقیرو مصلی اس جلوس کی جان ہوتا۔ وہ تھوڑا لنگا کے چلتا اور ساتھ دائیں ہاتھ کو ایک مخصوص انداز میں گھماتا ایک ان سنی تال پر ، ایک غیر مرئی سا دھمال ڈالتے ہوئے اپنا دایاں ہاتھ پورے زور سے گھما کر جب شرکا کے نعروں میں فقط پاکستان آتا تو وہ اپنی چال کے نکھار اور آواز کے ردھم پر اس طرح نعرے لگاتا” پاکستان بنا کے چھڑساں ، “ ”بنا کے چھڑساں ، بنا کے چھرساں پاکستان“ ۔ بنا کے چھوڑیں گے پاکستان، بنا کے رہیں گے پاکستان ، لے کے رہیں گے۔ مقام عبرت کہ چرخ پیر ایک بہت بڑے جاگیردار، دہشت کی علامت صاحب اقتدار اور متحدہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ملک خضر حیات ٹوانہ کی فقیرو مصلی کے ہاتھوں درگت بنتے دیکھ رہا ہوتا۔ اس جلوس میں شامل بڑی تعداد میں بچوں، بڑوں ، جوانوں اور بوڑھوں کا جوش و جذبہ ان کی نعروں کی تال اور ان کی آواز کی گھن گرج میں شامل ، تیقن اس عزم کی گواہی دے رہے ہوتے کہ لے کے رہیں گے پاکستان، پاکستان بن کے رہے گا /پاکستان ، بٹ کے رہے گا، ہندوستان
۔1947ءمیں تقسیم ہند کے دوران جب ایسے پیغامات تواتر کے ساتھ غلام علی تارڑ تک پہنچے کہ سکھوں کا کوئی جتھا چکوال شہر کی مسلم آبادی پر حملہ کرنے والا ہے تو وہ خود انپے پسٹل سے مسلح ہو کر جب کہ بڑی تعداد میں لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے لیس نوجوان رضاکاروں کو لے کر مسلمان بہن بھائیوں کو تحفظ دینے پہنچ جاتے۔ رب ذوالجلال کی حکمت کہ غلام علی تارڑ نے 14 اگست 1947 ءکو خطہ ارض پر پہلی مسلم نظریاتی مملکت پاکستان کو جس کے قیام کے لئے انہوں نے بھرپور جدوجہد کی ۔ معرض وجود میں آتے تو دیکھا، مگر وہ چند روز بعد ہی 5 ستمبر 1947 ءکو ایک حادثہ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ تحریک پاکستان کے ممتاز کارکن غلام علی تارڑ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کے تینوں بیٹوں ، بڑے کیپٹن محمد رفیق تارڑ، منجھلے بین القوامی شہرت کے حامل گوریلا کمانڈر اور جہاد افغانستان کے ہیرو کرنل سلطان امیر تارڑ المعروف کرنل امام شہید اور منجھلے کرنل محمد سفیر تارڑ نے اپنے والد ماجد کی خواہش کے عین مطابق مملکت خداداد پاکستان کی دفاعی فصیل کو مضبوط تر کرنے میں حتی المقدور اپنا حصہ ڈالا۔ دسمبر 2013 ءکو ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں تحریک حصول پاکستان میں گرانقدر خدمات کے اعتراف کے طور پر چوہدری غلام علی تارڑ کو تحریک پاکستان گولڈ میڈل کا نذرانہ تشکر پیش کیا گیا جو ان کے چھوٹے بیٹے کرنل محمد سفیر تارڑ نے وصول کیا۔