اقبال فیروز کا ناول "اور وہ چلے گئے”۔ تقسیم ہند کا تاریخی اور تہذیبی بیانیہ
ناول "اور وہ چلے گئے” — حرف چند
❖ اقبال فیروز: ایک تخلیقی اور جمالیاتی شخصیت
یہ ناول اقبال فیروز کی ایک اہم ادبی کاوش ہے۔ اس میں ان دنوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جب انگریز حکومت ہندوستان کو مقامی لوگوں کے حوالے کر کے رخصت ہو رہی تھی۔ یہ ناول تاحال شائع نہیں ہوا۔ چند ہی دنوں میں قارئین کو مارکیٹ میں دستیاب ہو گا۔
جناب اقبال فیروز تخلیقی اور جمالیاتی شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی تحریروں میں اس کا عکس نمایاں ہوتا ہے۔ وہ بڑی مستعدی اور تواتر کے ساتھ راہوار قلم کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔
ناول "اور وہ چلے گئے” سے پہلے وہ "پس سلاسل” اور "ناہموار زمین” جیسے ناول لکھ چکے ہیں۔ دونوں ناول جنگ عظیم اول اور دوم کے پس منظر میں تحریر کیے گئے تھے۔
❖ ایک نو آبادیاتی عہد کی داستان
یہ ناول اس عہد تلاطم خیز کی داستان ہے۔ جب انگریز ہندوستان کو الوداع کہہ کر مقامی لوگوں کے سپرد اقتدار کر رہے تھے۔ اس لحاظ سے یہ نو آبادیاتی جبر کے تاریخی تناظر میں لکھا گیا ناول ہے۔
❖ تقسیم، تاریخ اور رومان کا امتزاج
ناول نگار نے آزادی اور تقسیم کے وسیع موضوع کو فنی انداز میں پیش کیا ہے۔ ہر منظر تاریخی ترتیب کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔
کہانی کی بنت۔ واقعات کی ترتیب۔ ماحول کی پیشکش۔ اور کرداروں کا برتاؤ۔ سب کچھ ناول کو دلچسپ اور پُراثر بناتے ہیں۔
یہ تاریخ اور رومان کا خوبصورت امتزاج ہے۔
❖ لاہور 1946 کا جادوئی منظر نامہ
ناول کا آغاز سال 1946 کے لاہوری منظر سے ہوتا ہے۔ مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، انگریز۔ سب ایک ساتھ مال روڈ، میکلوڈ روڈ، بیڈن روڈ اور ٹولنٹن مارکیٹ میں نظر آتے ہیں۔
یہ سب قاری کو ایک طلسمی دنیا میں لے جاتا ہے۔ جہاں سے واپس آنا مشکل ہوتا ہے۔
❖ صوفیا اور علی کی محبت
اسی ماحول میں صوفیا اور علی کی محبت پروان چڑھتی ہے۔ بوڑھے انگریز کے آنے سے ایک ڈرامائی موڑ آتا ہے۔
ناول نگار لکھتے ہیں۔
"بوڑھے انگریز نے اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے تھے اور نہ صوفیہ کے دودھ کے دانت ابھی قائم تھے۔۔۔”
❖ بیدار بخت، البرٹ کلب اور کرنل ہارڈر
پھر بیدار بخت لاہور آتا ہے۔ کرنل ہارڈر کی مدد سے البرٹ کلب میں ملازمت پاتا ہے۔
یہ کلب صرف انگریزوں کے لیے مخصوص ہے۔ ہندوستانیوں اور کتوں کو وہاں داخلے کی اجازت نہیں۔
❖ تاریخی بیانیہ کا آغاز
ناول کے صفحات میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن وائسرائے کے طور پر نظر آتے ہیں۔ لارڈ ویول سے ملاقات۔ صلاح مشورے۔
پھر منظرنامہ بدلتا ہے۔ ایک المیہ قریب آتا ہے۔ مقامی چہروں سے مسکراہٹیں غائب ہو جاتی ہیں۔
ناول نگار لکھتے ہیں۔
"رحم دین بھائی۔۔۔ ہم قسمت کے مارے انڈین لوگوں کے چہروں پر بھلا مسکراہٹ آ بھی سکتی ہے؟”
❖ فسادات، تارا سنگھ اور خالصہ راج کے نعرے
امرتسر میں مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہے۔ خبریں لاہور پہنچتی ہیں۔
تارا سنگھ تلوار لہراتے ہوئے خالصہ راج کے نعرے بلند کرتا ہے۔
لاہور بدترین ہنگاموں کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ انگریزوں کے میس سنسان ہو جاتے ہیں۔
❖ انگریز کرنل کی تبدیلی ایمان
انگریز کرنل جارج جیفرے اسلام قبول کرتے ہیں۔ وہ ہدایت اللہ بن جاتے ہیں۔
ان کی کہانی دل کو چھو لیتی ہے۔ انگریزوں کو واپس لے جانے والی سپیشل ٹرین کا ذکر دل دہلا دیتا ہے۔
❖ فاطمہ اور کرامت کی نئی زندگی
پریم کور کے والدین قتل کر دیے جاتے ہیں۔ کرامت کے اہل خانہ بھی تہہ تیغ ہو جاتے ہیں۔
پریم کور لاہور آتی ہے۔ اسلام قبول کر کے فاطمہ بنتی ہے۔ اور کرامت سے نکاح کرتی ہے۔
❖ کرداروں کی کہکشاں
اقبال فیروز کا ناول اور وہ چلے گئے
ناول میں کرداروں کی ایک وسیع کہکشاں نظر آتی ہے۔
گوپال داس۔ لالا دھنی رام۔ حکیم نور دین۔ نوازش علی۔ ارجمند بانو۔ رابرٹ۔ لیڈی سیلویا۔ بسنتی۔ پیٹر گل۔ شوانا۔ ڈیوڈ جیمز۔ نہال سنگھ آزاد۔ صوبیدار نور خان۔ ارجن سنگھ۔
اور نوجوان صحافی کرامت اللہ۔ جو سکھ لڑکی پریم کور پر دل ہار بیٹھتا ہے۔
اقبال فیروز کی اپنی زندگی اور ناولوں کے متعلق مکمل انٹرویو دیکھیں۔
❖ منظر نگاری اور نفسیاتی گہرائیاں
ناول نگار نے انگریزوں کے کلب ہوں یا غریبوں کی بستیاں۔ بازار، جیل، مسجد یا مندر۔ سب کی منظر کشی یکساں مہارت سے کی ہے۔
مرد و زن کے باہمی تعلق کی نفسیاتی پرتیں بھی بڑی گہرائی سے اجاگر کی گئی ہیں۔ اقبال فیروز کا ناول اور وہ چلے گئے
❖ ناول کا اختتام اور تاریخی گواہی
ناول کی اختتامی سطور میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن انگلستان پہنچ چکا ہے۔
"میں ہندوستان اللہ کے حکم پہ چھوڑ آیا ہوں۔ اور اگر کہیں خدا کا وجود ہے۔ تو وہ اس کی حفاظت کرے گا۔”
❖ نتیجہ: تاریخ اور ادب کا حسین امتزاج
یہ ناول ان لوگوں کے لیے تحفہ ہے جو تاریخ، رومان اور ادب سے دل لگاتے ہیں۔
اقبال فیروز مبارکباد کے مستحق ہیں۔ امید ہے کہ وہ اپنی تخلیقات سے اردو ادب کو مزید مالامال کرتے رہیں گے۔